• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 159186

    عنوان: فرض نمازوں کے بعد دیر تک جہری دعا کرنے کا حکم

    سوال: حضرت، ہمارے یہاں ہر نماز کے بعد تقریباً پانچ سے دس منٹ حتی کہ فجر نماز کے بعد تقریباً ۳۰/ منٹ تک ذکر اور دعا بلند آواز سے کئے جاتے ہیں اور جو بآواز بلند نہ کرے اس کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ برائے مہربانی اس بار ے میں قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اللہ آپ کو خیر سے نوازے۔

    جواب نمبر: 159186

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:612-541/N=7/1439

     ہر فرض نماز کے بعد روزانہ ۵سے ۱۰/منٹ تک اور فجر میں تقریباً آدھے گھنٹہ تک اجتماعی طور پر بآواز بلند ذکر ودعا کرنا امر منکر اور ممنوع ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین وغیرہم میں سے کسی سے ثابت نہیں، مزید براں اس میں کچھ دیگر مفاسد بھی ہیں،جن میں چند یہ ہیں:مسبوق مقتدیوں کی نماز میں خلل ہوتا ہے۔ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، ان میں سنتوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ کوئی ضرورت مند کسی ضرورت سے جانا چاہے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے؛ کیوں کہ لوگ ایسے شخص کو اچھا نہیں سمجھتے، وغیرہ وغیرہ (تفصیل کے لیے جواہر الفقہ، رسالہ احکام ، ۲: ۱۹۹- ۲۰۵، رسالہ احکام دعا، ص: ۷- ۱۳، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی ملاحظہ کیا جائے )؛ اس لیے آپ کے یہاں ہر فرض نماز کے بعد اجتماعی طور پر بآواز بلند ذکر ودعا کا جو رواج ہے، اسے ختم کرنا چاہیے۔ سلام کے بعد امام اور مقتدیوں کا باہمی رشتہ ختم ہوجاتا ہے، کوئی دوسرے کا پابند نہیں رہتا اور نمازوں کے بعد سری دعا مستحب ہے؛ اس لیے سلام کے بعد ہر شخص انفرادی طور پر سری دعا کرے اور جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، ان میں سلام کے بعد مختصر دعا کرکے سنتوں میں مشغول ہوجانا چاہیے، لمبی دعاوٴں میں مشغول ہوکر سنتوں میں تاخیر خلاف سنت، مکروہ اور برا ہے۔

    فإن کان بعدھا أي: بعد المکتوبة تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام، ویکرہ تأخیر السنة عن حال أداء الفریضة بأکثر من نحو ذلک القدر ……وقد یوفق بأن تحمل الکراھة علی کراھة التنزیہ ومراد الحلواني عدم الإساء ة ……وھو قریب من المکروہ کراھة التنزیہ فتحصل منہ أن الأولی أن لا یقرأ الأوراد قبل السنة، ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنة بذلک حتی إذا صلاھا بعد الأوراد تقع سنة موٴداة لا علی وجہ السنة……فالحاصل أن المستحب في حق الکل وصل السنة بالمکتوبة من غیر تأخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یوٴدي تأخیرہ إلی الکراھة لحدیث عائشةبخلاف المقتدي والمنفرد الخ (غنیة المستملي، ص ۳۴۱- ۳۴۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ونحوہ فی الدر المختار ورد المحتار (کتاب الصلاة، آخر باب صفة الصلاة، ۲: ۲۴۶، ۲۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند