عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 158977
جواب نمبر: 158977
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 599-65T/sd=6/1439
اذان کے وقت اذان کا جواب دینا چاہیے ، کسی قسم کی باتوں میں یا دوسرے اعمال میں مشغول نہیں ہونا چاہیے ۔ولا یشتغل بقرا ء ة القرآن ولا بشئی من الأعمال سوی الاجابة ۔ ( الفتاوی الہندیة : ۵۷/۱)(۲) مسجد میں بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا ممنوع اور آداب مسجد کے خلاف ہے ، مسجد میں عبادات، ذکر، تلاوت وغیرہ میں مشغول ٍرہنا چاہیے ، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے ، تو بقدر ضرورت مباح بات کرنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن دنیاکی باتیں کرنے کے لیے باقاعدہ مسجد میں مجلس لگانا بالاتفاق مکروہ ہے اور مسجد میں غلط قسم کی باتیں کرنا بالکل ناجائز ہے ۔ قال الحصکفی : والکلام المباح؛ وقیدہ فی الظہیریة بأن یجلس لأجلہ لکن فی النہر الإطلاق أوجہ۔قال ابن عابدین : (قولہ بأن یجلس لأجلہ) فإنہ حینئذ لا یباح بالاتفاق لأن المسجد ما بنی لأمور الدنیا.وفی صلاة الجلابی: الکلام المباح من حدیث الدنیا یجوز فی المساجد وإن کان الأولی أن یشتغل بذکر اللہ تعالی، کذا فی التمرتاشی ہندیة وقال البیری ما نصہ: وفی المدارک - {ومن الناس من یشتری لہو الحدیث} [لقمان: 6] المراد بالحدیث الحدیث المنکر کما جاء الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمة الحشیش ۔انتہی. فقد أفاد أن المنع خاص بالمنکر من القول، أما المباح فلا. ( الدر المختار مع رد المحتار : ۶۶۲/۱، کتاب الصلاة، ط: دار الفکر، بیروت )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند