• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 158846

    عنوان: سوتیلے باپ كی بیٹی سے نكاح كا حكم

    سوال: (۱) فرض نماز سے پہلے جو تکبیر ہو تی ہے بریلوی حضرات اس دوران بیٹھے ہوتے ہیں اور تکبیر کے ختم ہونے کے بعد فرض کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ (۲) اپنے سوتیلے باپ کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے یا نہیں جو دوسری ماں سے پیدا ہوئی ہو، اور اس کی پیدائش کے بعد اس کے باپ نے دوسرا نکاح کرلیا ہو۔

    جواب نمبر: 158846

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 669-516/sn=6/1439

    (۱) اس سلسلے میں بریلویوں کا طرزِ عمل صحیح نہیں ہے، اقامت پر کھڑے ہونے کا مسنون اور افضل طریقہ یہ ہے کہ اگر امام صاحب مسجد کے اندر نماز پڑھانے کے لیے تیار بیٹھے ہوں تو وقت ہونے پر موٴذن صاحب اقامت شروع کردیں، اس کے بعد امام صاحب مصلی پر پہنچ جائیں اور مقتدی حضرات بھی کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں، البتہ اگر کوئی مقتدی کسی وجہ سے شروع اقامت میں کھڑا نہ ہوسکے تو موٴذن کے ”حی علی الفلاح“ پر پہنچنے تک کھڑا ہوجائے، اس سے زیادہ تاخیر خلافِ سنت ہے، حاصل یہ ہے کہ ابتدائے اقامت سے لے کر حی علی الفلاح تک کسی بھی مرحلے میں کھڑا ہونے والا شخص شرعاً مستحب طریقے پر عمل کرنے والا کہلائے گا، فقہائے کرام نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے۔

    (۲) آدمی کے لیے اپنے سوتیلے باپ کی بیٹی (جو اس کی ماں کے علاوہ کسی اور کے بطن سے ہو) نکاح کرنا شرعاً جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند