• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 158056

    عنوان: جماعتِ ثانیہ

    سوال: میں ملیشیا میں زیر تعلیم ہوں ۔ یہاں مالکی اور شا فعی فقہ کو ماننے والوں کی تعداد ذیادہ ہے ۔ مساجد میں جماعت کی نماز ختم ہونے کے بعد جو بھی آتا ہے وہ انفرادی نماز نہیں پڑھتا ، بلکہ جماعت سے پڑھنا ضروری سمجھتا ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہے تو نیا آنے والا شخص جس کو فرض نماز جماعت سے نہیں ملی ہے ، پہلے سے پڑھ رہے شخص(چا ہے وہ نوافل پڑھ رہا ہو یا اپنی چھوٹی ہؤی رکعات پوری کر رہا ہو) کی پیٹھ پر ہاتھ مارتا ہے اور اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتا ہے ۔ ہاتھ مارنا گویا اشارہ ہے کہ میں نے تمہیں امام مان لیا ہے ۔ مجھے دریافت یہ کرنا ہے کہ جب میں اپنی چھوٹی ہوئی رکعات پوری کر رہا ہوتا ہوں یا سننتیں پڑھ رہا ہوتا ہوں تو لوگ مجھے شرعی لباس اور داڑھی ہونے کی وجہ سے اکثر میری پیٹھ پر ہاتھ مارکر میرے اقتداء میں نماز شروع کر دیتے ہیں۔ اور ایک دو اشخاص ہی نہیں بلکہ با قاعدہ مکمل صف بن جاتی ہے ۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میری اگر جماعت چھوٹ جاتی ہے اور وہاں مسجد میں دوسری جماعت ہو رہی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو شخص نماز پڑھا رہا ہے وہ شروع سے ہی امام ہے یا مندرجہ بالا طریقہ پر اپنی نماز کے درمیان میں امام بنا ہے ۔ تو ایسی حالت میں مجھے جماعت میں شریک ہو جانا چاہیے یا نہیں؟ جزاکم اللہ خیر

    جواب نمبر: 158056

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:518-444/L=4/1439

    اس طور پر نماز ادا کرنے میں حنفی مسلک کے اعتبار سے دو خرابیاں پائی جاتی ہیں(۱) مسجد میں جماعت ثانیہ کا ہونا(۲) اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے دونوں کی فرض نمازیں ایک ہوں اسی طرح نماز پڑھانے والا فرض پڑھا رہاہونفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والے کی نماز درست نہیں ہوتی، اس طرح مسبوق کی اقتدا درست نہیں ،اگر آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی آکر اقتداء کرلے تو اس میں آپ کا قصور نہیں ہے بس آپ اقتداء کی نیت نہ کریں ،اور اگر کبھی آپ کی نماز چھوٹ جائے تو آپ تنہا نماز پڑھ لیا کریں جماعت میں شریک نہ ہوں صحابہ کرام کی عادتِ شریفہ یہی تھی کہ نماز ہوجانے کے بعد پہونچنے کی صورت میں وہ تنہا تنہا نماز ادا کیا کرتے تھے ،نیز اس میں جماعت ثانیہ میں شرکت کرنا لازم آئے گا جو خود ایک مکروہ عمل ہے اور اگر امام سنت وغیرہ پڑھ رہا ہے تو اس کے پیچھے فرض نماز درست نہ ہوگی ۔ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً اھ(الدرالمختار: ۲: ۳۲۴، ۳۲۵کتاب الصلاة، باب الإمامةط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند