• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 157837

    عنوان: بعد توبہ مرتد پر سابقہ نمازوں کی قضا ضروری ہے؟

    سوال: ایک شخص جس کی عمر۲۵ سال ہوگی اس سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں، مثلا پریشانی سے تنگ آکر یہ سوچنا کہ نعوذبااللہ خدا کو کس نے حق دیا کہ اس نے مجھے پیدا کیا دوسرا یہ سوچنا نعوذ بااللہ کہ یا اللہ جتنی درخواست میں نے آپ سے کی اتنی درخواست میں نعوذبااللہ کتے سے کرتا تو وہ میری سنتا تیسرا نعوذ بااللہ اس نے سوچا کہ دین اسلام نہیں ہے ، اور الحاد پر یقین کرنے لگا اور نماز تلاوت چھوڑدی اور کفریہ باتیں بھی ان سے ہوئیں ،جیسے کہ اسلام میں نعوذباللہ یہ ٹھیک نہیں وغیرہ ،لیکن اب اس شخص پر اللہ کا فضل ہوا اور توبہ کے ساتھ تلاوت پانچ وقت کی نماز اور قضاء نمازبھی شروع کی لیکن عالموں سے پتا چلا کہ اس پر قضا نماز نہیں کیوں وہ اسلام سے خارج ہو چکا تھا ۔ براہ مہربانی آپ بتائیں کہ قضا نماز کا کیا حکم ہے اس شخص پر؟

    جواب نمبر: 157837

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:485-416/sn=5/1439

    راجح قول کے مطابق مرتد جب توبہ کرلے تو اس پر ارتداد سے پہلے اس کی جو نمازیں چھوٹی ہیں ان کی قضا کرنا ضروری ہے؛ ہاں حالت ارتداد کی نمازوں کی قضا ضروری نہیں ہے؛ لہٰذا اس شخض پر ضروری ہے کہ ارتداد سے پہلے اس کی جو نمازیں چھوٹی ہیں ان سب کی قضا کرے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کفر وشرک کی باتوں کے وسوسے اور محض انھیں سوچنے سے (دل سے برا سمجھنے کے ساتھ ) کسی مسلمان پر کفر کا حکم عائد نہیں ہوتا؛ ہاں جب کفر والحاد پر یقین کرلے تب کفر کا حکم لگتا ہے۔ ویقضی ما ترک من عبادة فی الإسلام لأن ترک الصلاة والصیام معصیة والمعصیة تبقی بعد الردة وما أدی منہا فیہ یبطل، ولا یقضی من العبادات إلا الحج إلی آخر ما في رد رد المحتار․ (درمختار مع الشامي: ۶/ ۳۹۷، مطلب: المعصیة تبقی بعد الردة، ط: زکریا) وقال في المرقاة نقلاً عن صاحب الروضة في شرح البخاري: المذہب الصحیح المختار الذي علیہ الجمہور أن أفعال القلوب إذا استقرت یوٴاخذ بہا فقولہ -صلی اللہ علیہ وسلم- فإن اللہ تجاوز من أمتي ما وسوست بہ صدورہا محمول علے ما إذا لم تستقر وذلک معفو بلا شکٍّ․ (مرقاة مع المشکاة، رقم: ۶۳، باب في الوسوسة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند