عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 157566
جواب نمبر: 157566
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:387-339/D=4/1439
جب آپ دعوت اور تزکیہ دونوں نسبتوں سے وابستہ ہیں تو امید ہے کہ آپ نے داڑھی رکھ لی ہوگی اور احکام شریعت کے مطابق طہارت، وضو، غسل اور طریقہٴ نماز سے واقف ہوں گے، بقدر ضرورت سورتیں بھی یاد ہوں گی ایسی صورت میں آپ کا امامت کے لیے بڑھ جانا بالکل جائز ہے؛ بلکہ علم اور صلاح کے اعتبار سے اگر آپ سے بہتر دوسرا شخص نہ ہو تو آپ کو پس وپیش نہیں کرنا چاہیے، اور امامت کردینا چاہیے اوراگر مذکورہ امور ڈاڑھی، احکام طہارت ونماز سے واقفیت اور بقدر ضرورت حفظ سورت میں کمی ہو تو کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ رہے وساوس تو ان کی طرف توجہ یہ تصور کریں کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے اور میں نماز پڑھ رہا ہوں پھر جو قول یا عمل صادر ہو دل اس کی طرف متوجہ رہے مثلاً رکوع میں جاتے وقت دھیان رہے کہ میں رکوع کررہا ہوں اور تسبیح پڑھتے وقت دھیان رہے کہ میں سبحان ربی العظیم کہہ رہا ہوں، اس طرح کچھ دن پابندی کرنے سے آہستہ آہستہ وساوس ختم ہوجائیں گے۔
اور اگر آپ کسی شیخ مصلح سے وابستہ ہیں تو اپنے وساوس کا حال ان سے بتلاکر علاج معلوم کرسکتے ہیں۔
(۲) خیالات میں الجھ کر جماعت کی شرکت میں تاخیر نہ کیا کریں بلکہ توجہ ادھر سے ہٹاکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔
(۳) اگر اس سے اہل تر شخص موجود نہ ہو تو تنہا پڑھنے سے بہتر ہے کہ ایسا ہی شخص امامت کردے، اور اگر اہل تر شخص موجود ہے تو پھر بے ڈاڑھی والے کا امامت کرنا مکروہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند