• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 157566

    عنوان: وساوس كا شكار امامت كرے یا نہیں؟

    سوال: حضرت، میں نوکری کرتا ہوں اور الحمد للہ دعوت اور تزکیہ دونوں نسبتوں سے جڑا ہوں۔ دفتر میں اکثر لوگ نماز پڑھانے کے لیے آگے کر دیتے ہیں لیکن مجھے نماز میں بہت برے خیالات آتے ہیں۔ کوشش کر رہا ہوں نفس کی اصلاح کی، آپ بھی دعا کریں۔ آپ سے سوال یہ ہے کیا میں نماز میں آگے بڑھ کے پڑھا سکتا ہوں؟ اور اس برے خیالات کی وجہ سے میں خود تاخیر سے شرکت کرتا ہوں جس سے تکبیر اولیٰ نہیں ملتی۔ اور کوئی بنا ڈاڑھی کے نماز پڑھا سکتا ہے؟

    جواب نمبر: 157566

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:387-339/D=4/1439

    جب آپ دعوت اور تزکیہ دونوں نسبتوں سے وابستہ ہیں تو امید ہے کہ آپ نے داڑھی رکھ لی ہوگی اور احکام شریعت کے مطابق طہارت، وضو، غسل اور طریقہٴ نماز سے واقف ہوں گے، بقدر ضرورت سورتیں بھی یاد ہوں گی ایسی صورت میں آپ کا امامت کے لیے بڑھ جانا بالکل جائز ہے؛ بلکہ علم اور صلاح کے اعتبار سے اگر آپ سے بہتر دوسرا شخص نہ ہو تو آپ کو پس وپیش نہیں کرنا چاہیے، اور امامت کردینا چاہیے اوراگر مذکورہ امور ڈاڑھی، احکام طہارت ونماز سے واقفیت اور بقدر ضرورت حفظ سورت میں کمی ہو تو کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ رہے وساوس تو ان کی طرف توجہ یہ تصور کریں کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے اور میں نماز پڑھ رہا ہوں پھر جو قول یا عمل صادر ہو دل اس کی طرف متوجہ رہے مثلاً رکوع میں جاتے وقت دھیان رہے کہ میں رکوع کررہا ہوں اور تسبیح پڑھتے وقت دھیان رہے کہ میں سبحان ربی العظیم کہہ رہا ہوں، اس طرح کچھ دن پابندی کرنے سے آہستہ آہستہ وساوس ختم ہوجائیں گے۔

    اور اگر آپ کسی شیخ مصلح سے وابستہ ہیں تو اپنے وساوس کا حال ان سے بتلاکر علاج معلوم کرسکتے ہیں۔

    (۲) خیالات میں الجھ کر جماعت کی شرکت میں تاخیر نہ کیا کریں بلکہ توجہ ادھر سے ہٹاکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔

    (۳) اگر اس سے اہل تر شخص موجود نہ ہو تو تنہا پڑھنے سے بہتر ہے کہ ایسا ہی شخص امامت کردے، اور اگر اہل تر شخص موجود ہے تو پھر بے ڈاڑھی والے کا امامت کرنا مکروہ ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند