عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 155633
جواب نمبر: 155633
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:156-8T/B=2/1439
(۱) نیت نام ہے دل کے ارادے کا، اس لیے دل سے نیت کرنا ہی اصل ہے اور دل کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لینا بہتر ہے: النیة بالإجماع وہي الإرادة․․․ والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادة فلا عبرة للذکر باللسان․․ والتلفظ عند الإرادة بہا مستحب وقیل سنة (الدر المختار ص: ۹۰، تا ۹۲/ ط: زکریا دیوبند)
(۲) اگر وہ شخص اسی وقت کی نماز کے ارادے سے چلے اور تکبیر تحریمہ تک کھانے، پینے بات چیت یا دیگر دنیوی مشاغل میں مبتلا نہ ہو تو یہی نیت کافی ہوگی الگ سے نیت کرنا ضروری نہیں: وجاز تقدیمہا (النیة) علی التکبیر․ الدر المختار ․․․․ وفي البحر: المراد بہ الفاصل الأجنبي وہو ما لا یلیق بالصلاة کالأکل والشرب والکلام لأن ہذہ الأفعال تبطل الصلاة فتبطل النیة، وأما المشي والوضوء فلیس اجنبیا (رد المحتار مع الدر ۲/۹۳، زکریا دیوبند)
(۳،۴) تین اوقات: طلوعِ شمس، استواء شمس اورغروب شمس کے علاوہ ہروقت قضاء نماز پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ تنہائی میں قضا نماز پڑھے تاکہ لوگوں کو گناہ کی اطلاع نہ ہو وکرہ تحریمًا وکل ما لا یجوز مکروہ صلاة مطلقا ولو قضاءً أو واجبة أو نفلاً مع شروق واستواء وغروب (الدر المختار: ۲/ ۲۰ تا ۳۲، زکریا دیوبند) یلا یکرہ قضاء فائتة ولو وترًا بعد طلوع الفجر (الدر المختار: ۲/ ۳۷ زکریا) واعلم أن الأوقات المکروہة نوعان: ․․․ والثانی ما بین الفجر والشمس وما بین صلاة العصر إلی الإصفرار․․․ والنوع الثاني ینعقد فیہ جمیع الصلوات التي ذکرنا معا من غیر کراہة إلا النفل والواجب لغیرہ فإنہ ینعقد مع الکراہة (شامي: ۲/ ۳۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند