• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 155460

    عنوان: نماز میں بلند آواز سے پڑھنا

    سوال: حضرت مفتی صاحب! نماز میں اس قدر تیز آواز سے پڑھنا کہ کانوں تک اپنی آواز سنائی دے ضروری ہے یا نہیں؟ اور اگر ضروری ہے تو جو ہلکے پڑھتے ہیں جس سے کانوں تک آواز نہیں سنائی دیتی، ان کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہوگی تو کیا نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی؟ یا بعد میں پتا چلے تو کیا قضا لازم ہے؟

    جواب نمبر: 155460

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:110-93/M=2/1439

    نماز میں قرأت کا تلفظ زبان سے کرنا ضروری ہے، محض دل دل میں پڑھنے سے قرأت ادا نہ ہوگی، تصحیح الحروف امر لازم لابد منہ ولا تصیر قراء ة إلا بعد تصحیح الحروف الخ (التاتارخانیة) اور قرأت شرعی کے مفہوم کے متعلق دو اقوال منقول ہیں: ایک یہ کہ زبان سے صحیح حروف کی ادائیگی اس طرح ہو کہ آدمی خود اپنے پڑھے ہوئے کو سن سکے یہ علامہ ہندوانی رحمہ اللہ وعلامہ فضلی رحمہ اللہ کا قول ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ قرأت کے لیے صرف زبان سے تصحیح حروف کافی ہے خود سننا لازم نہیں، یہ علامہ کرخی رحمہ اللہ کا قول ہے، اگر چہ دونوں اقوال کی تصحیح کی گئی ہے لیکن زیادہ تر فقہاء کا رجحان پہلے قول کی طرف ہے۔ القراء ة وہو تصحیح الحروف بلسانہ بحیث یسمع نفسہ، فإن صُحح الحروف من غیر أن یسمع نفسہ لا یکون ذلک قراء ة في اختیار الہندواني والفضلي الخ وقیل: إذا صُحح الحروف یجوز وإن لم یسمع نفسہ وہو اختیار الکرخي رحمہ اللہ (حلبي کبیر ۲۷۵، ہندیہ: ۱/ ۶۹) (مستفاد از کتاب النوازل: ۳/ ۵۰۹)

    پس جو لوگ اتنی آواز سے قرأت کرتے ہیں کہ خود تو نہیں سن پاتے لیکن حروف کی ادائیگی صحیح طور پر ہوجاتی ہے تو امام کرخی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق نماز ان کی ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں تاہم احتیاط اس میں ہے کہ آئندہ وہ اپنی نماز میں اتنی آواز سے پڑھیں کہ خود سن لیں تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند