• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 152605

    عنوان: كیا ظہر کی نماز سے پہلے جو سنتیں قضاء ہوئی فرض نماز كے بعد پھر ان کی قضاء نہیں ہوتی ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ نے یہ کہا ہے کہ ظہر کی نماز سے پہلے جو سنتیں قضاء ہوئی فرض نماز کی بعد پھر ان کی قضاء نہیں ہوتی ۔ اور اس طرح فجر کی بھی ، اور اس نے ایک عالم کا حوالہ دیا کہ وہ کہتا ہے کہ یہ قضاء کئی ہوئی ظہر کی جو پہلی چہار سنتیں ہیں وہ بعد میں فرض نماز کے بعد نہیں ہوسکتی۔بلکہ صرف دو رکعت پڑھ لی جائے ۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 152605

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1035-963/sd=10/1438

    اگر ظہر سے پہلے کی چار سنتیں رہ جائیں، تو ظہر کی فرض نماز کے بعد وقت کے اندر اُس کو پڑھ لینا چاہیے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سنتیں پڑھنا ثابت ہے ، یہ سنت کی قضاء نہیں ہے ؛ بلکہ وقت کے اندر سنت کی ادائے گی ہے ، مذکورہ شخص کی بات صحیح نہیں ہے اور اگر فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں، تو اُس کو فجر کے بعد نہیں پڑھا جائے گا؛ اس لیے کہ فجر کی فرض کے بعد وقت کے اندر سنتیں پڑھنا مکروہ ہے ؛ البتہ طلوع شمس کے بعد امام محمد کے نزدیک سنتوں کی قضاء بہتر ہے ۔ قال الحصکفی : (بخلاف سنة الظہر) وکذا الجمعة (فإنہ) إن خاف فوت رکعة (یترکہا) ویقتدی (ثم یأتی بہا) علی أنہا سنة (فی وقتہ) أی الظہر (قبل شفعہ) عند محمد،وبہ یفتی جوہرة.قال ابن عابدین : (قولہ فی وقتہ) فلا تقضی بعدہ لا تبعا ولا مقصودا بخلاف سنة الفجر. وظاہر البحر الاتفاق علی ذلک، لکن صرح فی الہدایة بأن فی قضائہا بعد الوقت تبعا للفرض اختلاف المشایخ، ولذا قال فی النہر: إن ما فی البحر سہو. وأجاب الشیخ إسماعیل بأنہ بناہ علی الأصح.(قولہ وبہ یفتی) أقول: وعلیہ المتون، لکن رجح فی الفتح تقدیم الرکعتین. قال فی الإمداد: وفی فتاوی العتابی أنہ المختار، وفی مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح لحدیث عائشة أنہ - علیہ الصلاة والسلام - کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبی حنیفة، وکذا فی جامع قاضی خان اہ والحدیث قال الترمذی حسن غریب فتح۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۵۹/۲،باب ادراک الفریضة، ط: دار الفکر، بیروت ) ( وإن لم یأمن ) فوت الإمام باشتغالہ بسنة الفجر ( ترکہا ) واقتدی لأن ثواب الجماعة أعظم من فضیلة رکعتی الفجر لأنہا تفضل الفرض منفردا بسبع وعشرین ضعفا لا تبلغ رکعة الفجر ضعفا واحدا منہا ( ولم تقض سنة الفجر إلا بفوتہا مع الفرض ) إلی الزوال وقال محمد رحمہ اللہ تقضی منفردة بعد الشمس قبل الزوال فلا قضاء لہا قبل الشمس ولا بعد الزوال اتفاقا وسواء صلی منفردا أو بجماعة۔( حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص246 ط مصطفی الحلبی )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند