• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 151811

    عنوان: صاحب ترتیب كو وقتیہ شروع كرنے كے بعد چھوٹی ہوئی نماز یاد آئی تو كیا كرے؟

    سوال: ایک شخص صاحب ترتیب ہے اور اس کی ایک نماز قضا ہوگئی اور وہ قضا پڑھنا بھول گیا کئی ایام کے بعد اسے نماز کے دوران مذکورہ قضا نماز یاد آگئی لیکن اس نے اپنی وقتیہ نماز کو نہ توڑا پہلے اسے پوی کیا بعد میں قضا کی کئی دنوں بعد اسے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اگر قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنے کے بعد اگر اسے اس پہلے کی چھوٹی نماز یاد آجائے تو وہ نماز باطل ہوجاتی ہے پہلے قضا بعدہ ادا پڑھے ، لہذا، اب تک جو اس نے نمازیں پڑھی ہیں وہ درست ہوئیں یانہیں؟ اگر نمازیں درست نہیں ہوئیں تو اب اس شخص کومعلوم نہیں کہ مذکورہ مسئلہ اسے کب پیش آیا اس سلسلے میں اب اس شخص کو کیا کرنا چاہئے براہ کرم مدلل ومفصل جواب مرحمت فرمائیں

    جواب نمبر: 151811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 918-885/sd=9/1438

    صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص صاحب ترتیب تھا اور اُس کی ایک نماز قضاء ہوگئی ، لیکن وہ قضاء پڑھنا بھول گیا ، تو اُس کے بعد جتنی نمازیں اداء کی ہیں، سب صحیح ہوگئیں، پھر اگر اُس کو اداء نماز میں سلام سے پہلے قضاء یا د آگئی ، لیکن اس کے باوجود اُس نے اداء نماز کو توڑ کر پہلے قضاء نہیں پڑھی؛ بلکہ اداء کو مکمل کر لیا ، پھر قضاء پڑھی اور اُس کے بعد اُس نے چھ اداء نمازیں پڑھ لیں، تو سب نمازیں صحیح ہوگئیں، اب کسی نماز کی قضاء کی ضرورت نہیں ہے ۔ (أو نسیت الفائتة) لأنہ عذر۔ قال ابن عابدین : وحاصلہ أنہ یسقط الترتیب إذا نسی الفائتة وصلی ما ہو مرتب علیہا من وقتیة أو فائتة أخری ۔۔۔وقال ابن عابدین : (قولہ أو فاتت ست) یعنی لا یلزم الترتیب بین الفائتة والوقتیة ولا بین الفوائت إذا کانت الفوائت ستا، کذا فی النہر. أما بین الوقتیتین کالوتر والعشاء فلا یسقط الترتیب بہذا المسقط کما لا یخفی ح. وأطلق الست فشمل ما إذا فاتت حقیقة أو حکما کما فی القہستانی والإمداد.ومثال الحکمیة ما إذا ترک فرضا وصلی بعدہ خمس صلوات ذاکرا لہ فإن الخمس تفسد فسادا موقوفا کما سیأتی؛ فالمتروکة فائتة حقیقة وحکما والخمسة الموقوفة فائتة حکما فقط. وقال الحصکفی : لکن فی النہر والسراج عن الدرایة: لو سقط للنسیان والضیق ثم تذکر واتسع الوقت یعود اتفاقا، ونحوہ فی الأشباہ فی بیان الساقط لا یعود فلیحرر۔ قال ابن عابدین : (قولہ فلیحرر) التحریر أن الخلاف لفظی فی ضیق الوقت، فإن ما فی المجتبی مصرح بأن عدم العود فیما إذا خرج الوقت. وما فی الدرایة مصرح بأن العود فیما إذا اتسع الوقت أی ظہر أن فیہ سعة فلا منافاة بینہما، وکذا فی التذکر بعد النسیان، فإن ما فی المجتبی محمول علی ما إذا تذکر بعد الفراغ من الصلاة بدلیل أنہم اتفقوا فی المسائل الاثنی عشریة علی أنہ لو تذکر فائتة وہو یصلی، فإن کان قبل القعود قدر التشہد بطلت اتفاقا، وإن کان بعدہ قبل السلام بطلت عندہ لا عندہما. وما فی الدرایة محمول علی ما إذا تذکر قبل الفراغ منہا کذا أفادہ ح.ثم قال: وفی التحقیق ضیق الوقت لیس بمسقط حقیقة، وإنما قدمت الوقتیة عند العجز عن الجمع بینہما لقوتہا مع بقاء الترتیب کما صرح بہ فی البحر عن التبیین. وینبغی أن یقال مثل ذلک فی النسیان، فعلی ہذا لو سقط الترتیب بین فائتة ووقتیة لضیق وقت أو نسیان یبقی فیما بعد تلک الوقتیة․ (الدر المختار مع رد المحتار : ۷۰/۲، باب قضاء الفوائت ، ط: دار الفکر، بیروت ، بہشتی زیور ،۱۰۷، دوسرا حصہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند