عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 150831
جواب نمبر: 150831
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 848-813/N=8/1438
حضرات احناف کے نزدیک فجر کی نماز اسفار میں یعنی: خوب روشنی ہوجانے کے بعد پڑھنا مستحب ہے اور اگر نماز کے بعد فساد ظاہر ہو تو وضو یا غسل کے بعد وقت کے اندر مسنون قراء ت کے ساتھ نماز کا اعادہ کیا جاسکے ۔ جس کے لیے اکابر علمائے دیوبند نے فرمایا: فجر کی نماز طلوع افتاب سے ۳۰سے ۴۰، ۴۵/ منٹ پہلے شروع کردی جائے اور طلوع آفتاب سے ۱۵، ۲۰/ منٹ پہلے مکمل کرلی جائے ۔
قولہ: (وندب تأخیر الفجر) لما رواہ أصحاب السنن الأربعة وصححہ الترمذي ”أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للفجر“ ، أطلقہ فشمل الابتداء والانتھاء، فیستحب البداء ة بالإسفار والختم بہ خلافاً للطحاوي؛ فإنہ نقل عن الأصحاب استحباب البداء ة بالغلس والختم بالإسفار، والأول ظاھر الروایة کما فی العنایة، وقالوا: یسفر بھا بحیث لو ظھر فساد صلاتہ یمکنہ أن یعیدھا فی الوقت بقراء ة مستحبة، …، وفی السراج الوھاج: حد الإسفار أن یصلي فی النصف الثاني (البحر الرائق، کتاب الصلاة، ۱: ۴۲۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، (والمستحب) للرجل (الابتداء) فی الفجر (بإسفار والختم بہ) ھو المختار بحیث یرتل أربعین آیة ثم یعیدہ بطھارة لو فسد (الدر المختار مع رد المحتار، ۲: ۲۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، والحاصل أن حد الإسفار أن یمکنہ إعادة الطھارة ولو من حدث أکبر کما فی النھر والقھستاني وإعادة الصلاة علی الحالة الأولی قبل الشمس (رد المحتار) ، ونقل ابن عابدین أیضاًعن الحلبي عن القھستاني حول القول المختار أنہ الأصح۔
امداد الاحکام (۲: ۲۵مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند ) میں ہے: پس وقت مستحب کا انتہائی حصہ یہ ہے کہ جب نماز شروع کی جاوے اس وقت کم از کم نصف گھنٹہ طلوع آفتاب میں باقی ہو۔
اور حاشیہ میں ہے: سہارن پور، دیوبند وغیرہ میں اسی پر عمل ہے کہ نماز شروع کرنے کے وقت ۳۰/ منٹ سے کم باقی نہیں ہوتے اور ۴۰، ۴۵سے زیادہ نہیں ہوتے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند