• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 149348

    عنوان: ۴۸/ میل دور نوکری یا تجارت کرنے والا دوران سفر اور ملازمت کی جگہ پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی صورت میں نماز قصر کرے گا یا نہیں؟

    سوال: ۴۸/ میل دور نوکری یا تجارت کرنے والا دوران سفر اور ملازمت کی جگہ پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی صورت میں نماز قصر کرے گا یا نہیں؟

    جواب نمبر: 149348

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  545-510/N=6/1438

     

    (۱، ۲): صورت مسئولہ میں اگر آبائی وطن ( جو آدمی کی مستقل رہائش گاہ ہے) کی آخری آبادی اور عارضی وطن (جہاں آدمی بزنس یا نوکری کررہا ہے) کی ابتدائی آبادی دونوں کے درمیان سفر شرعی کی مسافت ہے، یعنی: دونوں کے درمیان دوری سوا ستتر کلو میٹر یا اس سے زیادہ کی مسافت ہے اور اس نے عارضی وطن کو مستقل رہائش گاہ کے طور پر اختیار نہیں کیا ہے، مستقل رہائش گاہ صرف آبائی وطن ہے اور عارضی وطن میں محض کاروبار یا ملازمت کی وجہ سے رہناہوتا ہے، خدانخواستہ اگر وہاں کاروبار یا ملازمت نہ رہے تو وہاں رہنے کا ارادہ بالکل نہیں ہے تو یہ شخص جب آبائی وطن سے عارضی وطن کے ارادے سے نکلے گا یا عارضی وطن سے آبائی وطن کے ارادے سے نکلے گا تو آبادی سے باہر نکلتے ہی مسافر ہوجائے گا اور مسافر امام کی اقتدا میں یا اکیلے چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرے گا اور پہلی صورت میں لیے عارضی وطن پہنچ کر اگر وہاں پندرہ دن سے کم قیام کی نیت ہو تو یہ شخص وہاں بھی مسافر رہے گا، اور دوسری صورت میں راستہ میں مسافر رہے گا؛ لیکن جب وہ اپنے آبائی وطن کی آبادی میں داخل ہوگا تو فوراً مقیم ہوجائے گا اگرچہ وہاں صرف ایک دو روز؛ بلکہ ایک گھنٹہ قیام کی نیت ہو۔

    اور اگراس شخص نے کاروبار یا ملازمت کی جگہ کو بھی مستقل رہائش گاہ بنالیا ہے، یعنی: وہاں کاروبار یا ملازمت رہے یا ختم ہوجائے ، وہاں بہر صورت سال میں چند ماہ یا کسی موسم میں چند ایام رہائش رہے گی تو اس صورت میں اس کے لیے دونوں وطن، وطن اصلی ہوں گے اوریہ شخص صرف دوران سفر مسافر ہوگا اور جب دونوں جگہوں میں سے کہیں پہنچے گا ، اس کی مسافرت ختم ہوجائے گا اگرچہ وہاں پندرہ دن قیام کا ارادہ نہ ہو۔ (فتاوی محمودیہ ۷:۴۹۱ - ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱،مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)۔ ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ الخ (المصدر السابق، ص:۵۹۹)، الوطن الأصلي ھو موطن ولادتہ أو تأھلہ أو توطنہ ( المصدر السابق، ص:۶۱۴)، قولہ:”الوطن الأصلي“:ویسمی بالأھلي ووطن الفطرة والقرار ۔ح عن القھستاني۔…… قولہ:”أو توطنہ“:أي: عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال الخ (رد المحتار)، ثم الأوطان ثلاثة: وطن أصلي وھو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدة أخری اتخذھا داراً وتوطن بھا مع أھلہ وولدہ ولیس من قصدہ الارتحال عنھا بل التعیش بھا ،……فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع۱: ۴۹۷، ۴۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وھذا الوطن - الوطن الأصلي- یبطل بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن في بلدة أخری وینقل الأھل إلیھا فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً حتی لو دخلہ مسافراً لا یتم ، قیدنا بکونہ انتقل عن الأول بأھلہ ؛لأنہ لو لم ینتقل بھم ولکنہ استحدث أھلاً في بلدة أخری فإن الأول لم یبطل ویتم فیھما ،…وفی المجتبی: نقل القولین فیما إذا نقل أھلہ ومتاعہ وبقي لہ دور وعقار ثم قال: وھذا جواب واقعة ابتلینا بھا وکثیر من المسلمین المتوطنین فی البلاد ولھم دور وعقار فی القری البعیدة منھا یصیفون بھا بأھلھم ومتاعھم فلا بد من حفظھا أنھما وطنان لہ لا یبطل أحدھما بالآخر (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب المسافر ۲: ۲۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند