• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 149334

    عنوان: نماز عصر اول وقت میں ادا کرنا

    سوال: میں حنفی ہوں، اور میرا تعلق کراچی پاکستان سے ہے، ہماری کمپنی کی گاڑی شام پانچ بجے نکلتی ہے، نماز کے لیے گاڑی روکنے پر کچھ لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں، آنے والے کچھ وقت میں عصر کی نماز کا وقت آگے بڑھے گا، اس صورت میں کیا میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق ادا کر سکتا ہوں؟

    جواب نمبر: 149334

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  506-520/N=6/1438

    اگر اعتراض کرنے والے کم ہوں اور نماز پڑھنے والے زیادہ ہوں تو معترضین کے اعتراض کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر معترضین زیادہ ہوں تو ایسی صورت میں اگر آپ سوج زرد ہونے سے پہلے گھر پہنچ کر نماز پڑھ سکتے ہوں تو گھر پہنچ کر عصر کی نماز ادا کریں اور اگر گھر کی دوری زیادہ ہو تو معترضین سے بات چیت کرکے انھیں موافق بنانے کی کوشش کریں اور اس کے لیے نماز پڑھنے والے حضرات پہلے سے باوضو ہوکر تیار رہی تاکہ جہاں نماز پڑھی جائے وہاں زیادہ دیر گاڑی روکنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اور اگر معترضین غالب آکر گاڑی روکنے پر پابندی لگادیں تو ایسی مجبوری میں نماز قضا کرنے سے بہتر ہے کہ مثل ثانی کے بعد کمپنی ہی میں عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں؛ کیوں کہ احنافکی ایک جماعت نے بھی اس کے موافق فتوی دیا ہے؛ لہٰذا اندیشہ قضا کے وقت اس پر عمل کی گنجائش ہوگی۔خلاصہ یہ ہے کہ حتی الامکان عصر کی نماز مثل ثانی کے بعد ہی پڑھی جائے؛ کیوں کہ اکثر احناف نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے ، نیز اس میں نماز کی ادائیگی اور فرض سے ذمہ کی براء ت یقینی ہے ۔ اور اگر مثل ثانی کے بعد عصر کی نماز پڑھنا مکن نہ ہو اور نماز قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں حنفیہ کے دوسرے قول پر عمل کی گنجائش ہوگی۔ (ووقت الظہر من زوالہ)… (إلی بلوغ الظل مثلیہ)، وعنہ مثلہ، وہو قولہما وزفر والأئمة الثلاثة، قال الإمام الطحطاوي: وبہ نأخذ، وفي غرر الأذکار:وھو المأخوذ بہ، وفی البرھان: وھو الأظھر لبیان جبریل، وھو نص فی الباب، وفی الفیض: وعلیہ عمل الناس الیوم، وبہ یفتی، (سوی فیٴ یکون للأشیاء قبل (الزوال) ……(ووقت العصر منہ إلی) قبیل (الغروب) (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۱۴- ۱۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”‘إلی بلوغ الظل مثلیہ“ھذا ظاھر الروایة عن الإمام، نھایة، وھو الصحیح، بدائع ومحیط وینابیع، وھو المختار، غیاثیة، واختارہ الإمام المحبوبي وعول علیہ النسفي وصدر الشریعة، تصحیح قاسم، واختارہ أصحاب المتون وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوي: ”وبقولھما نأخذ“ لا یدل علی أنہ المذھب، وما فی الفیض من ”أنہ یفتی بقولھما فی العصر والعشاء“ مسلم فی العشاء فقط علی ما فیہ وتمامہ فی البحر۔ ……۔قولہ:”وھو نص فی الباب“ فیہ أن الأدلة تکافأت ولم یظھر ضعف دلیل الإمام؛ بل أدلتہ قویة أیضا کما یعلم من مراجعة المطولات وشرح المنیہ، وقد قال فی البحر: لا یعدل عن قول الإمام إلی قولھما أو قول أحدھما إلا لضرورة من ضعف دلیل أو تعامل بخلافہ کالمزارعة وإن صرح المشایخ بأن الفتوی علی قولھما کما ھنا۔ قولہ:”وعلیہ عمل الناس الیوم“: أي: في کثیر من البلاد، والأحسن ما فی السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یوٴخر الظہر إلی المثل، وأن لا یصلي العصر حتی یبلغ المثلین لیکون موٴدیا للصلاتین في وقتھما بالإجماع (رد المحتار)، و-یستحب- تأخیر عصر صیفاً وشتاء … مالم یتغیر ذکاء (الدر المختار مع رد المحتار،۲: ۲۵، ۲۶)، مستفاد: وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعة یکون الأولی التأخیر أم لا؟ والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل، ثم رأیت في آخر شرح المنیة: ناقلاً عن بعض الفتاوی أنہ لو کان إمام محلتہ یصلی العشاء قبل غیاب الشفق الأبیض فالأفضل أن یصلیھا وحدہ بعد البیاض (رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۱۵) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند