• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 14001

    عنوان:

    امام کعبہ جس طرح سے وتر پڑھاتے ہیں وہ کافی مختلف ہے جس میں وہ دعا بھی منگواتے ہیں کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟ اور ایسے میں مقتدی کو کس طریقہ سے اقتداء کرنی ہوگی؟

    سوال:

    امام کعبہ جس طرح سے وتر پڑھاتے ہیں وہ کافی مختلف ہے جس میں وہ دعا بھی منگواتے ہیں کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟ اور ایسے میں مقتدی کو کس طریقہ سے اقتداء کرنی ہوگی؟

    جواب نمبر: 14001

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1120=1120/م

     

    وضاحت کس بات کی مطلوب ہے؟ حضراتِ حنفیہ کے نزدیک وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا لازم ہے، دو رکعت پر سلام جائز نہیں، مگر ائمہ ثلاثہ کے نزدیک دو رکعت پر سلام پھیردینا پھر ایک رکعت مستقل ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے، حنفیہ کا راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ دو سلاموں کے ساتھ وتر پڑھنے والے کے پیچھے حنفی شخص کی نماز وتر صحیح نہیں ہوتی، مگر مسلک حنفی کے طبقہ رابعہ کے مشہور ترین فقیہ حضرت امام ابوبکر رازی الجصاص اور علامہ ابن وہبان نے فرمایا کہ حنفی شخص کی نماز وتر اس کے پیچھے صحیح ہوجائے گی، اس لیے کہ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے: فمذھب الحنفیة أنہ لا وتر عندھم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیمٍ نعم لو اقتدی حنفي بشافعي في الوتر وسلّم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذھبہ ثم أتم الوتر صح وترُ الحنفي عند أبي بکر رازي وابن وہبان (معارف السنن) بوقت ضرورت قول غیرمشہور پر عمل کی گنجائش ہوجاتی ہے اور حجاز مقدس کی ضرورت سب کے سامنے واضح ہے، پس حضرت امام ابوبکر رازی رحمہ اللہ او رعلامہ ابن وہبان کی رائے کے مطابق حنفی کے لیے وتر میں وہاں کے امام کے پیچھے اقتداء کرنا صحیح ہوجائے گا۔ اور جب امام دو رکعت پر سلام پھیرکر ایک رکعت کے ساتھ تکمیل کرے تو حنفی سلام نہ پھیرے اور اس کے ساتھ وتر کی بقیہ رکعت بھی پڑھ لے (مستفاد انوار المناسک)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند