• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 12285

    عنوان:

    میں دبئی میں کام کرتاہوں۔ یہاں تمام مسجدوں میں عصر کی نماز کا وقت دوسرے اماموں کے مطابق ہوتا ہے یعنی وقت اول پر۔ میں پریشان ہوں کہ کیا جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں یا اکیلے نماز پڑھوں؟ مسجد کے باہر رکنا بہت مشکل ہے کیوں کہ ہر شخص تو مسجد میں نماز پڑھ رہا ہوتاہے۔ مجھے آپ کی ویب سائٹ پر دو فتوی ملے۔ ایک میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ جائز ہے اور دوسرے میں آپ نے فرمایا ہے کہ اکیلے نماز پڑھے۔ برائے کرم اس کی وضاحت فرماویں۔ (فتوی آئی ڈی نمبر:3105اور 7743ہیں)۔

    سوال:

    میں دبئی میں کام کرتاہوں۔ یہاں تمام مسجدوں میں عصر کی نماز کا وقت دوسرے اماموں کے مطابق ہوتا ہے یعنی وقت اول پر۔ میں پریشان ہوں کہ کیا جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں یا اکیلے نماز پڑھوں؟ مسجد کے باہر رکنا بہت مشکل ہے کیوں کہ ہر شخص تو مسجد میں نماز پڑھ رہا ہوتاہے۔ مجھے آپ کی ویب سائٹ پر دو فتوی ملے۔ ایک میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ جائز ہے اور دوسرے میں آپ نے فرمایا ہے کہ اکیلے نماز پڑھے۔ برائے کرم اس کی وضاحت فرماویں۔ (فتوی آئی ڈی نمبر:3105اور 7743ہیں)۔

    جواب نمبر: 12285

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 703=529/ل

     

    حنفیہ کے نزدیک قول مختار اور مفتی بہ یہی ہے کہ وقت عصر مثلین سے شروع ہوتا ہے اور مستقلاً ہمیشہ مثل واحد پر نماز عصر ادا کرنا گویا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کو ترک کرنا ہے؛ اس لیے ایسا نہ کیا جائے، آپ کے ساتھ اگر کچھ اور ساتھی مل جائیں تو عصر کی جماعت کسی کمرے میں مثلین کے بعد کرلیا کریں، یا تنہا پڑھ لیں، البتہ اگر کبھی اتفاقیہ جماعت میں شریک ہوکر نماز ادا کرلیں تو ان کے اعادہ کاحکم نہیں ہے، اسی طرح حرمین شریفین کی فضیلت کے پیش نظر وہاں جماعت ترک نہ کی جائے، بلکہ مثل ثانی کے اندر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے۔ حاصل یہ ہے کہ مجبوری کی صورت میں کبھی اتفاقیہ نماز عصر مثل اول پر پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔ اس کو دائمی معمول نہ ینایا جائے کہ اس سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کا ترک لازم آتا ہے: قال في الشامیة وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعة یکون الأولی التأخیر أم لا والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل (شامي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند