• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 65495

    عنوان: اگر کوئی کسی سے دینی یا دنیاوی مصلحت سے بات چیت نہ کرے تو كیا یہ درست ہے؟

    سوال: میرا سوال معاشرے سے متعلق ہے اور اُس حدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے جو کہ حضرت مولانا زکریا صاحب نے فضائل رمضان میں باب شب برات کی فضیلت میں حدیث نمبر5 کی تفصیل و تشریح بیان فرماتے ہوئے چند احادیث کے حوالہ سے یہ تحریر فرمایا ہے کہ: ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ۳ دن سے زیادہ چھوٹ چھٹاوَ رکھے اگر اس حالت میں مرگیا تو سیدھا جہنم میں جاوے گا۔ ۲۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کے دن اللہ کی حضوری میں بندوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔ اور اللہ جلّ شانہ کی رحمت سے)نیک اعمال کی بدولت( مشرکوں کے علاوہ اوروں کی مغفرت ہوتی رہتی ہے ۔ مگر جن دو میں جھگڑا ہو تا ہے ان کی مغفرت کے متعلق ارشاد ہو تا ہے کہ ان کو چھوڑے رکھو جب تک صلح نہ ہو۔ ۳۔ایک حدیث پاک یں ارشاد ہے کہ ہر پیروجمعرات کو اعمال کی پیشی ہوتی ہے اس میں توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول ہوتی ہے اور استغفار کرنے والوں کی استغفار قبول کی جاتی ہے مگر آپس میں لڑنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ۴۔ایک جگہ ارشاد ہے کہ شب برات میں اللہ کی رحمت عامہ خلقت کی طرف متوجہ ہوتی ہے او ر ذرا ذرا سے بہانے سے ( مخلوق کی مغفرت فرمائی جاتی ہے مگر دو شخصوں کی مغفرت نہیں ہوتی، ایک کافر دوسرا وہ جو کسی سے کینہ رکھے ۔)کتاب فضائل رمضان باب شب قدر کے بیان میں تشریح حدیث نمبر ۵ ( اسی طرح سے فضائل صدقات میں کسی حدیث کی بحث میں حضرت شیخ نے کہیں یہ بات بھی تحریر فرمائی ہے کہ ظالم ، جابر اور متکبر مزاج شخص کو سلام کرنا مناسب نہیں کہ اس عمل سے اُس شخص کے دل میں اور کبر پیدا ہوگا اور غرور و گھمنڈی ہوجائے گا اور اس کا ذریعہ یہ بنے گا۔ کیا فرماتے ہے ہیں علماء اکرام مفتیان شرع متین مندرجہ زیل مسلہ میں سوال۱۔ کینہ اور بغض کسے کہتے ہیں ؟ اس کی کیا تعریف ہے ؟اور ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟ سوال ۲۔ اگر کوئی انسان کسی مصلحت کے تحت جس میں مصلحت دنیا وی اور دینی دونوں شامل ہوں کسی شخص سے اظہار ناراضگی میں بات چیت سلام و کلام بند کردے اور نہ اس کے دل میں کسی قسم کا دوسرے شخص کو نقصان پہوں چانے کا جزبہ ہو اور نہ وہ اس سے حثد رکھتا ہو اور نہ ہی اسکا برا چاہتا ہو تو ایسا عمل کیا کہلائے گا؟ سوال ۳۔میرا سوال قطعہ تعلقی اور سلہ رحمی سے متعلق ہے ۔میں اور میرے بڑے بھائی الگ الگ مکانان میں رہتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی کی اہلیہ دین کے اعتبار سے پختہ نہیں ہیں۔مثلاً سر کھلا رکھنا،بے حیائی کے ساتھ بڑوں کے سامنے بیٹھنا، کبھی کبھی گھر کے دروازے تک مہمانوں کو چھوڑ نے کے لئے ے بے پردہ باہر نکل آنا و غیرہ وغیرہ ، جسکی اور زیادہ تفسیل مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ میرا مزاج الحمد اللہ شروع ہی سے دینی و مذہبی ہے اس لئے مجھے یہ ساری باتیں تیر کی طرح سے چبھتی ہیں اور نا مناسب معلوم ہوتی ہیں ۔ بلکہ بچپن سے ہی اگر کوئی گھر میں مہمان بے پردہ آتا تھا تو مجھے اُس کا اس طرح سے آنا ناگوار گذرتا تھا۔ اوربے دینی کی باتوں پر بہت غصّہ بھی آتا ہے لیکن کچھ کہ نہیں کہہ پاتا اورضبط کر کے رہ جاتا ہوں۔اسی سلسلہ میں اپنے بڑے بھائی سے سر ڈھانے کے اور پردے کے متعلق یہ بات غالباً کہی لیکن اُن کی اہلیہ نے اُن کی بات نہیں مانی۔ میری بات چیت میری بھابی صاحبہ سے سوائے سلام کے اورکچھ بھی نہیں وہ بھی جب کبھی میرا اُن کا آمنا سامنا ہو ۔ لیکن ان تمام باتوں کو لے کر اب اظہارِ ناراضگی میں سلام کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ کیا یہ میرا عمل درست ہے ؟ یا نہیں۔اور مجھے ایسا کرنا چاہئے کہ نہیں؟یہ قطعہ تعلقی تو نہیں کہلائے گی ؟کیوں کہ میرے ناقص علم کے مطابق حیاةِ صحابہ سے دین کی خلاف وردی اور خلاف دین باتوں پر بولنا چھوڑدینا ثابت ہے ۔ جیسا کہ حضرت مولانا زکریا صاحب نے فضائل اعمال میں کتاب حکایات صحابہ میں ﴾باب نہم ۹﴿ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی فرما برداری اور اتثال حکم میں یہ قصہ نمبر ۶ میں حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہم کا اپنے بیٹے سے ہمیشہ کے لئے نہ بولنا ثابت ہوتا ہے ۔ اسی طرح اسی باب کے دوسرے واقعہ نمبر ۸ اسی کتاب کے ا حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالی عنہم خذف کی وجہ سے کلام چھوڑدینا ثابت ہوتا ہے ۔

    جواب نمبر: 65495

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1042-1042/M=11/1437 کینہ اور بغض دونوں مترادف ہیں دشمنی، عداوت، حسد، جلن کے معنی میں مستعمل ہیں، کسی سے کینہ اور بغض رکھنا تو شرعاً ممنوع ہے ہاں اگر کوئی کسی دوسرے سے دینی یا دنیاوی مصلحت سے بات چیت نہ کرے جبکہ اس شخص کے دل میں دوسرے کے خلاف کوئی دشمنی، حسد، جلن نہ ہو اور نہ اس کا برا چاہتا ہو نہ اس سے قطع تعلق مقصود ہو بلکہ اصلاح و تنبیہ کی غرض سے ہو یا اس کے شر سے بچنا مقصود ہو تو شرعاً اس میں حرج نہیں اور اعلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی برائی سے پیش آئے تو ہم اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں، اگر کوئی ظلم کرے تو ہم معاف کردیں اگر کوئی قطع رحمی کرے تو ہم اس کے ساتھ صلہ رحمی کریں حدیث میں ہے: صل من قطعک واعف عمن ظلمک وأحسن إلی من أساء إلیک․ اور ایک روایت میں ہے: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذي إذا قطعت رحمہ وصلہا یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو بلکہ صلہ رحمی کرنے والا دراصل وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلہ رحمی کرے۔ حضرت شیخ الحدیث زکریا رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فائدہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: بالکل ظاہر اور بدیہی بات ہے جب آپ ہر بات میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسا برتاوٴ دوسرا کرے گا ویسا ہی میں بھی کردوں گا تو آپ نے کیا صلہ رحمی کی؟ یہ بات توہر اجنبی کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ خود اس پر احسان کرنے میں مجبور ہیں۔ صلہ رحمی تو درحقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے التفاتی بے نیازی قطع تعلق ہو تو تم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہو، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتاوٴ کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ دوسروں کے حقوق ادا کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے مطالبہ ہوجائے اور اپنے حقوق کے پورا ہونے کا واہمہ بھی دل میں نہ لو بلکہ اگر وہ پورے نہیں ہوتے تو اور بھی زیادہ مسرور ہوکہ دوسرے عالم میں جو اجرو ثواب اس کا ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہوگا جو یہاں دوسرے کے ادا کرنے سے وصول ہوتا، ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں میں ہر معاملے میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اترے رہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو تو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے (یعنی خود ذلیل ہوں گے) اور تیرے ساتھ اللہ جل شانہ کی مدد شامل حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جمع رہے گا“ (مشکوة) اور جب اللہ جل شانہ کی مدد کسی کے شامل حال رہے تو نہ کسی کی برائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے نہ کسی کا قطع تعلق، نفع پہنچنے سے مانع ہو سکتا ہے“ (فضائل صدقات، ص:۲۱۶) پس آپ کا اور آپ کی اہلیہ وغیرہ کا بھابھی اور جٹھانی وغیرہ کے ساتھ یہی معاملہ ہونا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند