• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 6327

    عنوان:

    میری عمر اکتیس سال ہے۔ میں واقعی دل برداشتہ ہوں لیکن میں ہمیشہ اپنے چہرہ پر مسکراہٹ رکھ کرکے اپنی پریشانیوں کو چھپانا چاہتاہوں۔مجھے امید ہے کہ آپ میری پریشانی کوحل کریں گے۔ میری شادی چار سال پہلے ہوئی جس سے میرے والدین نے نو سال پہلے نکاح متعین کردیا تھا یعنی چار سال شادی کو اوراس سے پہلے نو سال سب ملاکرکے تیرہ سال ہوگئے۔ سب کچھ میرے والدین کی خواہش کے مطابق ہوا لیکن اس سے نو سال تک بات کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکی سے شادی نہ کروں کچھ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے جو کہ نظر انداز کرنے کے قابل تھیں جب انھوں نے میرا نکاح اٹھارہ سال کی عمر میں متعین کیا۔ میں نے اس لڑکی سے پچیس سال کی عمر میں شادی کرنے کو کہا۔۔۔۔؟

    سوال:

    مفتی صاحب میری عمر اکتیس سال ہے۔ میں واقعی دل برداشتہ ہوں لیکن میں ہمیشہ اپنے چہرہ پر مسکراہٹ رکھ کرکے اپنی پریشانیوں کو چھپانا چاہتاہوں۔مجھے امید ہے کہ آپ میری پریشانی کوحل کریں گے۔ میری شادی چار سال پہلے ہوئی جس سے میرے والدین نے نو سال پہلے نکاح متعین کردیا تھا یعنی چار سال شادی کو اوراس سے پہلے نو سال سب ملاکرکے تیرہ سال ہوگئے۔ سب کچھ میرے والدین کی خواہش کے مطابق ہوا لیکن اس سے نو سال تک بات کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکی سے شادی نہ کروں کچھ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے جو کہ نظر انداز کرنے کے قابل تھیں جب انھوں نے میرا نکاح اٹھارہ سال کی عمر میں متعین کیا۔ میں نے اس لڑکی سے پچیس سال کی عمر میں شادی کرنے کو کہا، لیکن انھوں نے مجھے ہمیشہ کہا کہ جب تک تمہاری بہن کا کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا ہے تب تک ہم تمہاری شادی نہیں کریں گے اوراس کے بعد گھریلو تنازعہ شروع ہوا اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکی سے شادی مت کرو لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح ان کو باور کرالیایعنی بہت ساری تکلیف اور زخم کھانے کے بعد۔ اورجب میری بہن کی شادی ہوئی تب میں نے پچیس سال کی عمر میں شادی کی۔ یہ بہت زیادہ تکلیف دہ سال تھا کیوں کہ مجھے گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ شادی کے موقع پر انھوں نے مجھے مناسب روپیہ بھی نہیں دیا کپڑے خریدنے کے لیے، میں نہیں جانتا کہ کیوں ، کیوں کہ ہم لوگ کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں اچھا کاروبار ہے، انھوں نے میری بہن کومیرے مقابلہ میں سب کچھ دیا ۔اور وہ پیسہ بھی میرے والد صاحب نے دیا جب کہ میری ماں میری شادی کے بعد دینے پر تیار نہیں تھی۔ اللہ نے مجھے ایک لڑکا عطا کیا جو کہ میری زندگی کا بہت خوش گوار لمحہ تھا، نیز میرے بچہ کی پیدائش کے بعد بھی اس نے مجھے اچھی چیزیں خریدنے کے لیے پیسہ نہیں دیانہ کہ اچھی چیزیں جیسے کہ پھل وغیرہ ۔وہ میرے بچے پر لعن طعن بھی کرتی تھی بری چیزیں کہتے ہوئے نیز اس کو مارا بھی کرتی تھی جب کہ وہ صرف ایک یا دوسال کا تھا۔ اس کے چھ ماہ کے بعد میری بہن کو بچہ پیدا ہوا اورہر چیز میرے لڑکے کے مقابل میں مختلف تھی۔ وہ اس کی دیکھ بھال کرتی تھی حتی کہ جب میں نے پوچھا کہ وہ اس طرح کیوں کررہی ہے تو اس نے کہا کہ وہ بھی حق رکھتی ہے اوروہ اس کے بچے پر روپیہ خرچ کرے گی۔چار سالوں کے بعد میرے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ میں نے اپنے بچہ کی خاطر لڑنا شروع کیا۔ پہلے تومیں اپنی بیوی سے بھی خاموش رہنے کو کہتا تھا اور حتی کہ اس کو میں نے میرے والدین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے اپنی آغوش میں لیا تھا۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ وہ صحیح ہے ۔اب بھی میں اسی گھر میں ہوں اورمیں دل برداشتہ ہوں کہ وہ میرے ساتھ ایسا کیوں کررہی ہے۔ اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اسلام کے خلافغلط کیا ہے، کیوں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اوروالد جنت کا دروازہ ہیں۔ اور میری بیوی کے پیروں میں کچھ تشویش ناک جلد کی بیماری ہوئی ہے ۔ میں اکیلا پن اور دل برداشتگی محسوس کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا ہوں کہ کیا کروں ؟ مجھے بتائیں کہ کیا میں نے کچھ غلط کیا ہے اور ہمیشہ اپنی پوری کوشش کرتاہوں کہ ان کو خوش رکھوں۔ کیوں کہ یہ میرے اورمیری بیوی کے ساتھ واقع ہورہا تھا یہ درست تھا لیکن میرے لڑکے کے ساتھ میں اس کو برداشت نہیں کرسکا۔کیوں کہ اس میں بہت زیادہ حجت تھی اور میری ماں نے مجھے بدعا بھی دی جیسے کہ تمہارا لڑکا بھی تمہاری طرح کرے گا۔ کیا اس کی تمام بدعا میرے اوپر اثرانداز ہوگی؟ یا مجھے بتائیں کہ کیامیں نے اللہ تبارک وتعالی کو ناراض کردیا ہے اپنی ماں کے ساتھ حجت کرکے یہ بتانے کے لیے کہ وہ میری حقیقی ماں ہے نہ کہ سوتیلی ماں ہے ۔ مجھے اس کی بدعا کے بارے میں فکر ہے۔

    جواب نمبر: 6327

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1060=976/ د

     

    آپ والدین کو خوش رکھتے ہوئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا پورا خیال رکھیں جو ناگواری یا ناانصافی کی بات ان کی طرف سے ظاہر ہو، اس پر ان سے تکرار نہ کریں، اس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ملے گا۔ نیز بیوی کے حقوق ادا کرنے، دلجوئی اور خبرگیری کرنے میں کسر نہ اٹھائیں، آپ کے لیے بیوی اور والدین نیز اپنے بچے سب ہی کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں۔ والدن کا دل آپ کی طرف سے برا کیوں ہوا، اگر وجہ معلوم ہوجائے تو اس کے تلافی کی کوشش کریں اور دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں، خاص طور پر یہ دعا : رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند