معاشرت >> اخلاق و آداب
سوال نمبر: 36485
جواب نمبر: 36485
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 286=196-2/1433 یہ سب وساوس ہیں، مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دینی اور دنیوی معاملات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کو اپنا نمونہ بنائے، قرآن کریم میں ہے ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ اور ان کی زندگی کی روشنی ہی میں دین کو سمجھنا چاہیے، محض اپنی عقل پر اعتماد بسااوقات دنیا اور آخرت میں خسارہ کا باعث ہوتا ہے۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام دین کے ساتھ ساتھ معاش کے لیے بھی کوشاں رہتے، چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت کی، حضرت ابوبکر، حضرت عثمان غنی، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور بڑے بڑے صحابی نے تجارت کی، نیز بہت سے صحابہ مزدوری کرتے، بہتوں نے زراعت وغیرہ کو اپنا ذریعہٴ معاش بنایا؛ اس لیے ان وساوس کو چھوڑکر رزقِ حلال کے لیے کوئی انتظام کریں اور معاش کا بندو بست کریں، اسکے بعد اللہ پر اعتماد کریں، ایک حدیث میں ہے ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اونٹ باندھ کر اللہ پر اعتماد کروں یا کھلا چھوڑکر؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اعقلہا وتوکل“ یعنی باندھو پھر اعتماد کرو، نیز ایک حدیث میں ہے، ”طلب الحلال فریضة بعد الفریضة“ (کنز العمال) یعنی رزقِ حلال کی تلاش بھی ایک فرض ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند