• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 145801

    عنوان: شوہر کے ماں باپ کی خدمت کرنا کیا بہو کی ذمہ داری نہیں؟

    سوال: ہمارے مسلم معاشرے عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ والدین کی دیکھ بھال کرنا اوران کی خدمت کرنا بیٹے اور اس کی بیوی کی ذمہ داری ہے خاص طورپر جب والدین ضعیف ہوجائیں اور ان کو دوسروں کی مددکی ضرورت پڑے۔ بوڑھی والدہ کے بیمار ہونے کی صورت میں بیٹے کی بیوی ہی اچھی طرح ان کی دیکھ ریکھ کرسکتی ہے۔کچھ ہفتے قبل ، میں نے ایک ٹی وی شو میں ایک عالم کو کہتے ہوئے سنا کہ شریعت کے مطابق ساس کی دیکھ ریکھ کرنا بہو کی ذمہ داری نہیں ہے، اگر بہو ایسا کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے۔ میری بیوی ہمارے علاقے میں ایک عالمہ کے درس میں عام طورپر شریک ہوتی ہے، ان دروس میں میری بیوی کو معلوم ہوگیاہے کہ شریعت کے مطابق ساس سسر کی خدمت کرنا بہو کی ذمہ داری نہیں ہے، اگر بہو خدمت کرتی ہے تو ساس سسر اورشوہر پر یہ اس کا احسان ہے، اور شوہر اپنی بیوی کو اس کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت میں شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بیمار والدہ /والدین کے خدمت کے لیے کسی خاتون /نرس کو ہائر کرے (یعنی نوکرانی رکھے)اور ہر کوئی نوکرانی رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یہ حل قابل عمل نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں غریب مسلمان قرآن وحدیث کے احکامات پر کیسے عمل کرسکتاہے؟اگر بیوی اپنی بوڑھی بیمارساس کی خدمت کرنے سے انکار کردے تو اس کی کوئی وجہ ہے؟کیا بیوی پر یہ فرض نہیں بنتا؟ممکن ہے کہ اس معاملے میں شرعی حکم کی صحیح سے وضاحت اور تشریح نہیں کی گئی ہو؟ براہ کرم، اس بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح سے وضاحت فرمائیں۔جواب میں حوالے ضرور دیں تاکہ میں آپ کا جواب دوسرے مسلمان بھائی بہنوں کو دکھا کر مطمئن کرسکوں۔جزاک اللہ

    جواب نمبر: 145801

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 594-663/B=7/1438

    عالم کا مذکورہ بیان صحیح ہے، بیٹے کی بیوی کے اوپر دوسروں کی خدمت کرنا واجب نہیں، اس لیے اوروں کی خدمت اگر وہ کرتی ہے تو یہ اس کا تبرع اور احسان ہے؛ اس لیے ساس سسر کی خدمت پر مجبور کرنا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند