• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 61768

    عنوان: اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے، تو کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ جب ذی الحجہ کا ا چاند نظر آجائے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ؟ اور اگر کوئی چاند نظر آجانے کے بعد اپنے بال اور ناخن کاٹ دیتاہے تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے ؟ اس کی قربانی ہوجائے گی؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    سوال: اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے، تو کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ جب ذی الحجہ کا ا چاند نظر آجائے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ؟ اور اگر کوئی چاند نظر آجانے کے بعد اپنے بال اور ناخن کاٹ دیتاہے تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے ؟ اس کی قربانی ہوجائے گی؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    جواب نمبر: 61768

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 804-804/Sd=1/1437-U جس شخص کا قربانی کرنے ارادہ کا ہو، اُس کے لیے مستحب یہ ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے، حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، لیکن احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے، یعنی کاٹنا خلاف اولی ہے اور اِس کا قربانی کی ادائے گی و عدم ادائے گی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر کوئی شخص عشرہ ذی الحجہ میں بال یا ناخن کاٹ لے، تب بھی اُس کی قربانی بلا کراہت اداء ہوجائے گی۔ عن سلمة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا دخلت العشر، وأراد أحدکم أن یضحي، فلا یمس من شعرہ و بشرہ شیئاً۔۔۔ قال العثماني التھانوي: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر في العشر الأول، والنہي محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روي عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اعلاء السنن: ۱۷/ ۲۶۸۲۶۴، مفصلاً، کتاب التضحیة، باب ما یندب للمضحي في عشر ذي الحجة، ط: أشرفیة، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند