• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 61208

    عنوان: دوسرے كی قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا انتظام کرنا درست ہے؟ اور کیا یہ قربانی قبول ہوگی؟

    سوال: میری کمپنی آن لائن اپنے گاہکوں کے ذریعہ قربانی کرانے پر ان کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کرنے کا انتظام کرتی ہے۔ ہماری ویب سائٹ ہے:www.alqurbani.com۔اس حوالہ سے میرا سوال یہ ہے کہ : (۱) کیا کسی کی طرف سے جو قربانی کرنا چاہتاہے، قربانی کے جانورکے ذبح کرنے کا انتظام کرنا درست ہے؟اور کیا یہ قربانی قبول ہوگی؟دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کیا وسیلہ کے ذریعہ قربانی کرنا درست ہے؟ (۲) کیا یہ جائز کارو بار ہوگااگر کوئی کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ قربانی کاجانور خرید نے کے لییپیسے دیتاہے یعنی آئن لائن بکنکگ کرتاہے اور وہ وقت مقررہ پر سود دیئے بغیر بینک کو پیسے ادا کردیتاہے ؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 61208

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1050-1058/N=12/1436-U (۱) جی ہاں! اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی جانب سے قربانی کا جانور خریدنے اور قربانی کرنے کا وکیل بنادے اور وکیل موٴکل کے لیے اس کی ہدایت کے مطابق قربانی کا جانور خریدکر اس کی قربانی کرے تو شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ جانور کی خریداری اور قربانی میں وکالت درست ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنی قربانی خود ذبح کرے یا کم ازکم ذبح کے وقت حاضر رہے؛ لیکن یہ واضح رہے کہ وکالت کے باب میں موکل کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنا پیسوں کے حساب کتاب میں بے احتیاطی وغیرہ کرنا جائز نہیں، نیز جانور خریدتے وقت ہرموٴکل کے نام سے الگ الگ جانور خریدنا اور ذبح کے وقت اس جانور کو اسی کی طرف سے ذبح کرنا اور اس کا گوشت اسی موٴکل کے حوالہ کرنا ضروری ہوگا۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اگر موٴکل کسی دوسرے ملک میں ہو تو وکیل اور موٴکل دونوں کے یہاں ایام قربانی آچکے ہوں؛ لہٰذا اگر ابھی موٴکل کے یہاں قربانی کے ایام نہیں آئے یا آکر گذرگئے تو وکیل کا ایسے موٴکل کی جانب سے اپنے یہاں ایام قربانی میں بھی قربانی کرنا درست نہ ہوگا۔ (۲) کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ رقم کی ادائیگی جائز ہے بشرطیکہ کارڈ استعمال کرنے والے کو اپنے اوپر اس کا بھروسہ ہو کہ وہ سود چڑھنے سے پہلے قرضہ ادا کردے، البتہ افضل یہ ہے کہ اکاوٴنٹ میں بیلنس ہونے کی صورت میں کارڈ استعمال کیا جائے؛ کیوں کہ اس صورت میں جانبین سے یا یک طرفہ طور پر کسی قسم کے سودی لین دین کا کوئی معاہدہ وغیرہ بھی نہیں پایا جاتا (فتاوی عثمانی، عربی سوال وجواب ۳: ۳۵۶، ۳۵۷، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) آپ حضرات جو کام کرنے جارہے ہیں، یہ مفید وبہتر ہونے کے علاوہ نہایت اہم ونازک بھی ہے، اس میں قدم قدم پر دینی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے؛ اس لیے علاقہ کے دو چار معتبر ومستند علمائے کرام ومفتیان عظام کو اپنے ساتھ شامل کرکے ان کے مشورہ کے مطابق سارے کام انجام دیں۔ اور اگر آپ حضرات اس میں اپنے لیے کچھ فیصد نفع بھی رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی پوری تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کریں یا علاقہ کے معتبر ومستند علمائے کرام سے اس کی جائز وناجائز شکلیں سمجھ لیں، اس کے بعد صرف جائز شکلیں اختیار کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند