• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 55352

    عنوان: چرمِ قربانی کا صحیح مصرف

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ ایک شہر میں ایک ٹرسٹ جو کئی مساجد واوقاف کا انتظام کرتی ہے شہر کے اطراف ہونے والی لاوارث اموات کی تجہیز وتکفین کا کام بھی اس نے اپنے ذمے لیا ہے ۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے ۔ شہر میں سنّتِ ابراھیمابراھیمی کی ادائیگی میں بڑے پیمانے پر قربانیاں ہوتی ہیں۔ چرم قربانی شہر میں موجود کئی مستحق دینی مدارس کو دی جاتی تھی لیکن ٹرسٹ نے ایک فنڈ بنام "لاوارث میت فنڈ" قائم کرتے ہوئے عوام کو چرم قربانی اس میں جمع کرنے کا حکم دیا اور زور وشور سے اس پر عمل کررہے ہیں اور عوام کے درمیان قربانی کی کھالوں سے حاصل شدہ رقم سے میت کی تجہیز وتکفین کو بہترین مصرف قرار دیا ہے جب کہ شہر میں کثیر تعداد صاحِبِ استطاعت اور مخیّر حضَرات کی موجود ہے ۔ تجہیز وتکفین کا عمل فرض کفایہ ہے ۔ ہم علماء دین ومفتیان کرام سے استفسار کرتے ہیں کہ قربانی کے چمڑوں کا صحیح مصرف کیا ہے ؟ کیا چرم قربانی سے حاصل شدہ رقم سے فرض کفایہ کی ادائیگی کے لئے میت کی تجہیز وتکفین کا کام انجام دیا جاسکتا ہے ؟ مزید یہ کہ ٹرسٹ نے اب تک جو بھاری رقم جمع کررکھی ہے اس کا صحیح مصرف کیا ہے ؟ بینوا توجروا

    جواب نمبر: 55352

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1204-959/D=11/1435-U چرم قربانی فروخت کیے جانے کے بعد اس کی قیمت تملیکا غربا ومساکین کو دینا واجب ہے۔ میت کی تجہیز وتکفین میں اس رقم کو خرچ کرنا جائز نہیں۔ قال في الدر فإن بیع ․․․ الجلد ․․․ بدراہم تصدق بثمنہ (ج۹/ ۴۷۵ زکریا) جو زکاة کی رقوم کا مصرف ہے وہی چرم قربانی کی رقوم کا بھی مصرف ہے اور زکاة کی مصارف میں فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ کفن میت میں اس کا خرچ کرنا جائز نہیں الدر المختار کتاب الزکاة باب المصرف میں ولا یصرف إلی بناء نحو مسجد ولا إلی کفن میت وقضاء دینہ وقال الشامي تحتہ لعدم صحة التملیک منہ (زکریا الدر مع الرد: ۳/۲۹۱) (۱) چرم قربانی کی قیمت کا مصرف جیسا کہ لکھا گیا فقراء ومساکین جو مستحق زکاة ہیں مدرسہ کے غریب طلبہ بھی اس کا اچھا مصرف ہیں کہ علم دین کے پڑھنے پڑھانے میں لگے ہیں، معطین کی رقم اپنے مصرف میں خرچ ہونے کے ساتھ اچھے مقصد میں بھی خرچ ہوگی۔ (۲) تجہیز وتکفین میں خرچ کرنا جائز نہیں،خرچ کرنے والوں پر دوسری رقم اپنے پاس سے بطور صدقہ دینا واجب ہوگا۔ (۳) اوپر لکھ دیا گیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند