• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 48911

    عنوان: دنبہ اور بھیڑ

    سوال: دنبہ اور دنبی جس کے پیچھے چکی ہوتی ہے وہ تو اگر کم از کم چھ ماہ کا ہو اور سال جتنا لگ رہا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں مینڈھا اور بھیڑ میں علماء کرام کا اختلاف ہوا ہے ۔ مینڈھا اور بھیڑ اون والے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے چکی نہیں ہوتی صرف دم ہوتی ہے ۔ کچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ مینڈھے کا حکم بھی دنبے کی طرح ہے ۔ لیکن کچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ مینڈھا میں یہ حکم نہیں۔ مینڈھا کو سال والا ہونا ضروری ہے ۔ چھ ماہ والا حکم صرف چکی والے دنبے کیلئے ہے کیونکہ الضأن کی شرح الوقایہ نے تشریح کر دی ہے کہ من لہ الیة۔ کہ جس کی چکی ہوتی ہے ۔ اور الدر المختار میں ہے کہ لا التی لا الیة لھا۔ کہ یہ چھ ماہ والا حکم اس کیلئے نہیں جس کی چکی نہیں ہوتی۔ براہ مہربانی آپ ہماری رہنمائی کریں کہ کن علماء کی تحقیق صحیح ہے ۔ کیونکہ ہمارے شہر کے علماء کرام نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ جو دار العلوم دیوبند فتویٰ دے گا اس تحقیق پر ہی ہم سب متفق ہو کر اعتماد کریں گے ۔

    جواب نمبر: 48911

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1512-1535/N=1/1435-U میں نے عربی لغت کی تقریباً پندرہ کتابیں (کتاب العین، المحیط فی اللغة، تہذیب اللغة، المخصص، المصباح المنیر، لسان العرب، تاج العروس، جمہرة اللغة، معجم لغة الفقہاء، القاموس المحید، المطلع اور المعجم الوسیط وغیرہ) دیکھیں، سب میں ”ضأن“ کے معنی: ذوات الأصواف من الغنم اور معز کے معنی: ذوات الشعور من الغنم لکھے ہیں اور بعض کتابوں میں معز کے متعلق خلاف الضأن اور ضأن کے متعلق خلاف المعز لکھا ہے اور دنبہ اور بھیڑ دونوں اون والے ہوتے ہیں، دونوں میں سے کوئی بال والا نہیں ہوتا، بال والے بکرا بکری ہوتے ہیں، اس لیے ضأن میں دنبہ (چکتی والا) اور بھیڑ (غیر چکتی والا) دونوں داخل ہیں، خلاصہ یہ کہ بھیڑ ضأن کی ایک قسم ہے، اس سے خارج نہیں ہے، اور جذع ضأن کی دونوں قسموں میں کفایت کرتا ہے۔ اور آپ نے شرح وقایہ کے حوالہ سے اور علامہ شامی رد المحتار (۹: ۴۶۵ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) میں منح کے حوالہ سے ضأن کے جو معنی تحریر کیے ہیں، یعنی: ما لہ ألیة، یہ حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ تقریبی معنی ہیں، یعنی ان حضرات کے علاقہ میں ضأن کی صرف ایک قسم: دنبہ پائی جاتی ہوگی، اس لیے سمجھانے کے لیے اور معز یعنی بکرا بکری سے ممتاز کرنے کے لیے نہ کہ ضأن کی دوسری قسم: بھیڑ کو خارج کرنے کے لیے مالہ ألیة سے تفسیر کردی ہے، اسی لیے شامی رحمہ اللہ نے آگے تحریر کیا: قید بہ لأنہ لا یجوز الجذع من المعز وغیرہ بلا خلاف کما في المبسوط، قہستانی، والجذع من البقر ابن سنة ومن الإبل أربع بدائع اھ․ اور بہشتی زیور مدلل (۳:۳۹ مطوبعہ کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور) میں ہے: قلت: الضأن جمع ضأن کرکب جمع رکب من ذوات الصوف سواء کانت ذات ألیة أو لا، والمعز من ذوات الشعر کذا في البحر ۲: ۲۱۶ في زکاة الغنم، ومثلہ في رد المحتار ص: ۲۸، في زکاة الغنم فما نقل العلامة ابن عابدین فی کتاب الأضحیة عن المنح في تفسیر الضأن: ”ہو مالیہ ألیة“ فیہ نوع قصور فإنہ یوہم منہ تخصیصہ بأحد نوعیہ ولیس مرادہ التخصیص فإنہ رحمہ اللہ ذکر في زکاة الغنم عن القہستاني أن الضأن ما کان من ذوات الصوف اھ وذوات الصوف لا تختص بما لہ ألیة فلیتنبہ اھ․ اور فتاوی دارالعلوم دیوبند (۱۵: ۵۳۹- ۵۴۲) میں اس کے تعلق سے متعدد فتاوی ہیں،آپ انھیں بھی ملاحظہ کرلیں اور امداد المفتیین (ص: ۹۶۱) بھی دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند