عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 27477
جواب نمبر: 27477
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1790=1294-12/1431
”وکیل بالتضحیة“ ایسے شخص کو بنانا چاہیے جو معتمد اور دیانت دار ہو نیز موکل کو اس کا علم بھی ہو، ہرکسی کو وکیل بالتضحیہ بنادینا صحیح نہیں، قربانی کا مسئلہ اہم ہے اس میں کوتاہی سے کام لینا صحیح نہیں۔ ا لبتہ اگر کسی نے ایسے شخص کو قربانی کا وکیل بنادیا جو دور دراز علاقے میں جاکر قربانی کرتا ہے تو اس کے ذمہ سے فریضہ ساقط ہوگیا، محض شک کی وجہ سے دوسری قربانی کا حکم نہیں دیا جاسکتا، احتیاطاً دوسری قربانی کرلینا اولیٰ وبہتر ہے، ہاں اگر باوثوق ذرائع سے اس کو اطلاع مل گئی ہو کہ اس شخص نے قربانی نہیں کی تو ایام نحر میں دوسری قربانی کرنا واجب ہوگا اور ایام نحر کے گذرنے کے بعد ایک متوسط بکرے کی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند