عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 18163
حضرات
علمائے کرام کیا کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے دس تک بال اور ناخون نہیں
کاٹنے چاہیے؟ اورذی الحجہ میں نفلی روزہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس کی دین میں کیا
حقیقت ہے؟
حضرات
علمائے کرام کیا کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے دس تک بال اور ناخون نہیں
کاٹنے چاہیے؟ اورذی الحجہ میں نفلی روزہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس کی دین میں کیا
حقیقت ہے؟
جواب نمبر: 18163
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د):2235=1780-1/1431
(۱) جس شخص کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لیے حدیث میں یہ ہدایت ہے کہ بقرعید کا چاند نظر آنے کے بعد سے ناخون اور بال نہ کاٹے، یہ حکم مستحب درجہ کا ہے اورجس کا قربانی کا ارادہ نہ ہو اس کے لیے بھی ایسا کرنا بہترہے، نہ کرے تو کوئی حرج نہیں۔
بقرعید کا چاند نظر آنے کے بعد سے ۹/ دن ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو نفل عبادت بہت مرغوب وپسندیدہ ہے خواہ نفل نماز ہو یا روزہ لہٰذا ان دنوں میں نفل روزہ رکھنا باعث ثواب ہے اور خاص نویں تاریخ جسے عرفہ کہتے ہیں اس کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اس کی خاص فضیلت حدیث میں وارد ہے کہ عرفہ کا روزہ رکھنے والے کے ایک سال پچھلے اور ایک سال آئندہ کا گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند