عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 173207
جواب نمبر: 173207
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:90-20/sd=3/1441
اگر اُن کی قربانی دوسرے دن ہو، تو بہتر یہی ہے کہ دوسرے دن تک رکے رہیں، اس بارے میں صریح جزئیہ تو نہیں مل سکا؛ البتہ ملا علی قاریکی عبارت ”حتی یضحی“ سے یہی مستفاد ہوتا ہے۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے، یعنی کاٹنا خلاف اولی ہے اور اِس کا قربانی کی ادائے گی و عدم ادائے گی سے کوئی تعلق نہیں ہے،لہذا اگر کوئی شخص عشرہ ذی الحجہ میں بال یا ناخن کاٹ لے، تب بھی اُس کی قربانی بلا کراہت اداء ہوجائے گی۔
عن أم سلمة - رضی اللہ عنہا - قالت: قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم -: إذا دخل العشر، وأراد بعضکم أن یضحی فلا یمس من شعرہ وبشرہ شیئا۔قال الملا علی القاری : المستحب لمن قصد أن یضحی عند مالک والشافعی أن لا یحلق شعرہ، ولا یقلم ظفرہ حتی یضحی، فإن فعل کان مکروہا. وقال أبو حنیفة: ہو مباح، ولا یکرہ، ولا یستحب. وقال أحمد: بتحریمہ کذا فی رحمة الأمة فی اختلاف الأئمة. وظاہر کلام شراح الحدیث من الحنفیة أنہ یستحب عند أبی حنیفة فمعنی قولہ: رخص. أن النہی للتنزیہ فخلافہ خلاف الأولی، ولا کراہة فیہ خلافا للشافعی۔( مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح ، رقم ":۱۴۵۹)قال العثمانی التھانوی: نہی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر فی العشر الأول، والنہی محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روی عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اعلاء السنن: ۱۷/ ۲۶۸۲۶۴، مفصلاً، کتاب التضحیة، باب ما یندب للمضحی فی عشر ذی الحجة، ط: أشرفیة، دیوبند)۔ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند