• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 162169

    عنوان: شکار میں کیا مخصوص جانور پر تسمیہ پڑھنا ضروری ہے

    سوال: تعلیم یافتہ کتا یا عقاب کو جب آدمی بھیجے شکار کر کے لانے کے لئے تو بسم اللہ پڑھ کر بھیجے کیا مخصوص جانور ضروری مثلا بکریاں بہت ساری جارہی ہیں تو کیا اس کومختص تور پر کوئی ایک کرنی ہوگی اور دوسری کرلی تو کیا حکم ہے ؟ ملل اور مفصل بیان فرمائیں مع امثلہ۔

    جواب نمبر: 162169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1260-1071/sd=11/1439

     شکاری کتے یا عقاب کو شکار کی طرف چھوڑتے وقت تسمیہ ضروری ہے ، جس جانور کا شکار کیا جارہا ہے ، اُس کو مختص کرکے تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ، لہذا اگر شکاری کتے کو تسمیہ پڑھ کر بہت سی بکریوں کی طرف بھیجا ، تو وہ جس بکری کا بھی شکار کرے گا، وہ حلال ہوگی، خاص بکری کی تعیین ضروری نہیں ہے ، اسی طرح اگر تسمیہ پڑھ کر خاص بکری کے شکار کے لیے بھیجا، لیکن اُس نے راستے میں دوسری بکری کا شکار کرلیا، تب بھی دوسری بکری حلال سمجھی جائے گی، اصل شکار کو چھوڑتے وقت تسمیہ ضروری ہے ، یعنی تسمیہ کا تعلق مُرسِل ( بالغ شخص) اور مُر سَل ( شکاری کتا یا عقاب وغیرہ ) سے ہے ، مرسل الیہ ( شکار ) سے نہیں ہے ۔ قال ابن عابدین : (قولہ علی حیوان) ولو غیر معین، فلو أرسل علی صید وأخذ صیودا أکل لکل ما دام فی وجہ الإرسال قہستانی عن الخانیة، وکذا لو أرسلہ علی صیود کثیرة کما یأتی۔ ( رد المحتار : ۴۶۶/۶، کتاب الصید ، ط: دار الفکر، بیروت )(قولہ أو أخذ غیر ما أرسل إلیہ) سواء أخذ ما أرسل إلیہ أیضا أو لا بشرط فور الإرسال کما مر قال فی البدائع: فلو أرسل الکلب أو البازی علی صید وسمی فأخذ صیدا ثم آخر علی فورہ ذلک ثم وثم أکل الکل لأن التعیین لیس بشرط فی الصید لأنہ لا یمکن فصار کوقوع السہم بصیدین اہ ملخصا۔ ۔ ۔ (قولہ لأن غرضہ إلخ) أی غرض المرسل حصول أی صید تمکن منہ الکلب أو الفہد، وہذا معنی قول الہدایة: ولنا أنہ: أی التعیین شرط غیر مفید لأن مقصودہ حصول الصید، إذ لا یقدر أی الکلب علی الوفاء بہ: أی یأخذ العین إذ لا یمکنہ تعلیمہ علی وجہ یأخذ ما عینہ فسقط اعتبارہ۔ ( رد المحتار :۴۷۲/۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند