• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 153831

    عنوان: قربانی کا گوشت کتنے حصوں میں تقسیم کریں اور کن لوگوں کو دیا جائے؟

    سوال: بخدمت صدر مفتی صاحب دامت برکاتہم، مادر علمی دار العلوم دیوبند، حضرت والا الموقر کے دربار عالیہ میں عرض یہ کہ گندہ بندہ کو اس مسئلہ کا حل قرآن و سنہ کے روشنی میں دیجئے کہ ہمارے سماج میں ایک رسم و رواج ہیں کہ قربانی دینے والا عید اضحیٰ میں اپنی جانور کے گوشتوں کو تین قسم پر تقسیم کرتے ہیں، پہلا حصہ خود کھانے کیلئے جمع رکھتا ہے ، دوسرا حصہ فقراء اور مساکین اور دوست احباب میں تقسیم کرتا ہے ، اور تیسرا حصہ سماج والوں نے زبردستی کرکے مجبوراً لے جاتا ہے بلکہ اس تیسرا حصہ کو قربانی دینے والا سے زبردستی کرکے لیا جاتا ہے اکثر وقت قربانی دینے والا اس پر ناراض رہتا ہے مع جھگڑا بھی ہوتا ہے سماج والوں کی ساتھ، اسی طرح محلہ کے ہر فرد سے لیا جاتا ہے اور سب گوشتوں کو جمع کرکے عوام ( قربانی دینے والا، قربانی نہ دینے والا، مالدار، فقراء،مساکین، سب کے سب ) میں تقسیم کیا جاتا ہے ، قربانی دینے والوں میں سے بہت افراد کے قربانی منت کا بھی ہوتا ہے اور حرام مال سے بھی دیا جاتا ہے ... اب بندہ جاننا چاھتا ہے کہ: (۱) اصول مذکورہ پر گوشتوں کی سماجی تقسیم عوام میں کرنے کو شریعت کیا کہتے ہیں؟ جائز ہے یا نہیں؟ (۲) میری قربانی کے گوشت کو سماج کے تمام لوگوں میں سماج کی مذکورہ اصول پر تقسیم کر سکتا ہوں یا نہیں؟ اور اسی اصول پر ہم بھی گوشت کو لے سکتا ہوں یا نہیں؟ (۳) سماج کے کل افراد کے گوشت کو جمع کرکے تقسیم کرنے کیلئے شریعت کا کیا فیصلہ ؟ اگر کوء اصول ہوں بتا دیجئے ۔ اگر فوری طور پر جواب دیا جائے تو انشاء اللہ ہمارا سماج قرآن و سنہ پر عمل کر سکتا ہے ۔ مع السلام. جزاکم اللہ خیراً

    جواب نمبر: 153831

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1427-1378/L=12/1438

    قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ خود رکھ لینا،ایک حصہ کو اعزاء اقرباء میں تقسیم کردینا اور ایک حصہ فقراء کو دیدینا مستحب ہے ،واجب اور ضروری نہیں ہے ،اگر قربانی کرنے والا پورا گوشت خود استعمال کرلے تو اس کی بھی گنجائش ہے پھر تقسیم کرنے میں قربانی کرنے والاخود مختارہے وہ جہاں چاہے اور جس کو چاہے دے ؛اس لیے سماج والوں کا ایک حصہ زبردستی لے لینا جائز نہیں؛البتہ اگر کوئی خوشی سے تقسیم کا اختیار سماج کو دے دے تو سماج والوں کے لیے اس کو تقسیم کرنے کی اجازت ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند