عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 146284
جواب نمبر: 146284
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 146-1362/sd=1/1439
(۱، ۲،۳)ایسا بکرا جس کو خصی نہ کیا گیا ہو،اُس کا گوشت کھانا اور اُس کی خرید و فروخت جائز ہے اور ایسے بکرے کی قربانی بھی جائز ہے ؛ البتہ خصی بکرے کی قربانی افضل ہے ، جو لوگ کہتے ہیں کہ خصی بکرے کی قربانی افضل نہیں ہے ، اُن کی بات صحیح نہیں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی تھی وہ بھی خصی تھے ۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ قال: ذبح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین أقرنین أملحین مُوجَئَیْن۔ (سنن أبی داوٴد، کتاب الضحایا / باب ما یستحب من الضحایا ص: ۵۲۸قم: ۲۷۹۵دار الفکر بیروت، سنن الترمذی رقم: ۱۵۲۱) وَالْمَوْجُوءُ مَنْزُوعُ الأُنْثَیَیْنِ کَمَا ذَکَرَہُ الْجَوْہَرِیُّ وَغَیْرُہُ ۔ ( نیل الأوطار :۱۳۵/۵ ) ویضحی بالجماء والخصی والثولاء۔ (الدر المختار / کتاب الأضحیة)والخصی أفضل من الفحل؛ لأنہ أطیب لحمًا، کذا فی المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیة، کتاب الأضحیة / الباب الخامس فی بیان محل إقامة الواجب ۵/۲۹۹زکریا)والذکر منہ أفضل إذا کان خصیًا۔ (الفتاویٰ البزازیة علی ہامش الفتاویٰ الہندیة، کتاب الأضحیة / الفصل الرابع فیما یجوز من الأضحیة ۶/۲۸۹زکریا)ویجوز أن یضحیّ بالجماء … والخصی؛ لأن لحمہا أطیب، وقد صح أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحی بکبشین أملحین موجوٴین۔ (فتح القدیر ۹/۵۱۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند