• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 529

    عنوان:

    کیا عورتوں کو پینٹ پہننا جائز ہے؟

    سوال:

    (1)    کیا عورتوں کے لیے پینٹ کا پہننا جائز ہے؟ (یہ پینٹ خصوصی طور پر مرد یا عورت کے لیے نہیں بنے ہوتے ہیں)۔

    (2)  اسلام کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے کیا ٹی وی پر آنا درست ہے؟ (مفتی تقی عثمانی بھی پاکستان میں حدود قوانین کے سلسلے میں وضاحت کے لیے ٹی وی پر آئے)۔کیا اس مسئلے میں اورڈیجیٹل تصاویر میں کچھ اختلاف ہے؟

    (3)  کیا یہ جائز ہے کہ عورت الیکشن میں حصہ لے اور سربراہ مملکت بنے؟ (لوگ کہتے ہیں کہ مولانا تھانوی نے امداد الفتاوی میں اس کی اجازت دی ہے خصوصاً پارلیمنٹری طرز حکومت ہونے کی صورت میں)

    جواب نمبر: 529

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 109/د=106/د)

     

    (۱)  اللہ تعالیٰ نے انسان کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے، اس کا دو مقصد ہے تستّر بدن کو ڈھانکنا اور زینت، بدن کو ڈھانکنے کی ایک مقدار تو فرض ہے جیسے مرد کے لیے ناف کے نیچے سے گھٹنے تک کہ اس حصہ پر کسی مرد کو بھی علاوہ بیوی کے نظر کرنا جائز نہیں ہے۔ اور عورت کے لیے پورے بدن کا ستر فرض ہے ہتھیلی اور پیر کے علاوہ۔ عورت کو جس طرح پورے بدن کو ڈھانکنا فرض ہے اسی طرح ایسے لباس کے پہننے سے بھی احتراز کرنا لازم و ضروری ہے جو جسم کی ساخت اعضاء کے نشیب و فراز کو ظاہر کریں۔ جسم کی ساخت اور نشیب و فراز اور اعضاء کا حجم خواہ کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوں یا کپڑے کے موٹے اور دبیر ہونے کے باوجود جسم کی ساخت اور اعضاء کا حجم ظاہر ہورہا ہو، عورت کو ایسے لباس سے احتراز کرنا واجب ہے ایسی صورت میں کپڑے کے اوپر سے دیکھنا بھی ممنوع ہے کیونکہ یہ ان اعضاء ہی کے دیکھنے کے حکم میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: *من تأمل خلف امرأة ورأی ثیابھا حتی تبین حجم عظامہا لم یرح رائحة الجنة* (شامي) جس شخص نے کسی عورت کے پچھلے حصہ کو دیکھا اور اس کے کپڑے کو دیکھا جس سے اس عورت کے اعضاء کا حجم (سائز) ظاہر ہوگیا تو ایسا شخص جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔ وقال الشامي مفادہ أن روٴیة الثوب بحیث یصف حجم العضو ممنوعة ولو کثیفا لا تری البشرة منہ (شامي: ج5، ص224)

     

    علامہ شامی نے فرمایا کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ کپڑے کو ایسے طریقہ سے دیکھنا جس سے اعضاء کا حجم ظاہر ہوجائے تو عورت کے لیے زینت اور اعضائے زینت کو غیر محرموں سے چھپانا فرض ہے، پینٹ جیسا لباس پہننے سے اعضاء زینت غیر محرموں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں نیز قرآن پاک کے اس حکم کی خلاف ورزی بھی ہے جس میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے: وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلَی جُیُوبِھِنَّ یعنی اپنے دوپٹوں کا آنچل اپنے سینوں پر مارلیا کریں۔

     

    اس کے علاوہ مردوں کے لباس سے مشابہت اور غیرقوموں کی مشابہت پائی جاتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *من تشبہ بقوم فہو منھم* نیز اس میں بے حیائی کا فروغ ہے جب کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: *رُبَّ کاسیات عاریات ممیلات مائلات* الحدیث یعنی بہت سی عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی خود بھی غیروں کی طرف مائل ہوں گی اور ان کو اپنی طرف مائل بھی کریں گی۔ ایسی عورتیں جنت کی خوشبوں نہیں پائیں گی۔ (مشکاة)

     

    (۲)  ٹی وی کا استعمال کثرت سے آلہٴ لہو ولعب میں ہوتا ہے اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کا عمل کس موقعہ کا ہے اس کاحکم تو انھیں سے معلوم کرنا چاہیے۔ کس ضرورت شرعیہ کی بنا پر کیا ہوگا، جیسے ڈاکٹر کا کسی عورت کے اعضاء مستورہ کا دیکھنا یا گواہی کے لیے اس عورت کو دیکھنا جس کے حق میں گواہی دینا ہے۔

     

    (۳)  بخاری شریف میں ہے : لما بلغ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم أن أھل فارس قد ملکوا علیھم بنت کسری قال: *لن یفلح قوم ولّوا أمرھم امرأة* جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہل کسریٰ کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنالیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جنھوں نے اپنا سربراہ عورت کو بنالیا۔ اس ارشاد نبوی سے معلوم ہوتاہے کہ امارة مطلقہ اور سیادة عظمیٰ جو کسی کے تابع نہ ہو عورتوں کے سپرد نہ کرنا چاہیے، یہ چیز باعث فلاح نہ ہوگی۔

     

    ایسا ہی قسطلانی شارح بخاری کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور امت کے نزدیک عورت کو ایسی سربراہی جس میں عورت واقعی خود مختار اور مطلق العنان ہو کسی کے تابع نہ ہو درست نہیں ہے۔ ہاں اگر خود مختار مطلق العنان نہ ہو بلکہ کسی کے تابع ہو اور وقتی ہو تو گنجائش رہے گی، جیسا کہ اس جزئیہ سے معلوم ہوتا ہے وعن أبي حنیفة: تلي الحکم فیما یجوز فیہ شھادة النساء یعنی ان مسائل میں جہاں عورتوں کی شہادت جائز ہے عورت قاضی بن سکتی ہے۔ یہ حکم نفسی حکومت کی ذمہ داری قبول کرنے کا ہے ہائی الیکشن میں حصہ لینا جس کے لیے بے پردہ ہونا اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط اور مردوں کی محفلوں میں بے محابا شرکت لازم ہے، اور یہ امور اپنی جگہ ناجائز ہیں۔ اور ناجائز امور کا مجموعہ بھی ناجائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند