متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 172437
جواب نمبر: 172437
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1095-171/sn=12/1440
مذکور فی السوال دونوں طرح کے پانیوں سے بہ غرض علاج نہانے کی گنجائش ہے ،خواہ باتھ روم میں نہائے یا کسی اور جگہ۔
مستفاد:
ولا بأس بأن یشد الجنب والحائض التعاویذ علی العضد إذا کانت ملفوفة اہ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/ 523،ط: زکریا، دیوبند)
مجموع الفتاوی لابن تیمیہ میں ہے:
ویجوز أن یکتب للمصاب وغیرہ من المرضی شیئا من کتاب اللہ وذکرہ بالمداد المباح ویغسل ویسقی کما نص علی ذلک أحمد وغیرہ قال عبد اللہ بن أحمد: قرأت علی أبی ثنا یعلی بن عبید؛ ثنا سفیان؛ عن محمد بن أبی لیلی عن الحکم؛ عن سعید بن جبیر؛ عن ابن عباس قال: إذا عسر علی المرأة ولادتہا فلیکتب: بسم اللہ لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمد للہ رب العالمین {کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیة أو ضحاہا} {کأنہم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا إلا ساعة من نہار بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون} . قال أبی: ثنا أسود بن عامر بإسنادہ بمعناہ وقال: یکتب فی إناء نظیف فیسقی قال أبی: وزاد فیہ وکیع فتسقی وینضح ما دون سرتہا قال عبد اللہ: رأیت أبی یکتب للمرأة فی جام أو شیء نظیف.إلخ (مجموع الفتاوی 19/ 64،ط: مجمع الملک فہد ، المدینة المنورة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند