متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 167451
جواب نمبر: 167451
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:382-325/N=4/1440
(۱): جی نہیں! آپ موت کی دعا تو نہ کریں؛ البتہ اپنے نفس کی اصلاح کی فکر وکوشش کریں۔ اگر ایک، ۲/ ہفتہ کے بعد آ پ کے لیے توبہ پر برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو آپ اپنے شہر میں کوئی صاحب نسبت ومتبع شریعت وسنت عالم دین یا بزرگ تلاش کریں اور گاہے گاہے ان کی مجلس میں جایا کریں، ان کی صحبت کی برکت سے إن شاء اللہ توبہ میں پختگی آئے گی اور گناہوں سے بچنے آسان ہوگا۔
(۲): سستی کا علاج چستی ہے، یعنی: جب سستی آئے تو سستی کے تقاضے پر عمل نہ کیا جائے؛ بلکہ ہمت کرکے سستی کے خلاف کمر بستہ ہوجانا چاہیے، جب آدمی چند مرتبہ ایسا کرے گا تو ہمت مزید ہوجائے گی اور عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ اور ملٹی میڈیا موبائل یقیناً دور حاضر کا خطرناک فتنہ ہے،جس سے شاید باید لوگ محفوظ ہیں۔ جو شخص اس فتنہ کا شکار ہوا، یعنی: ملٹی موبائل کے غلط یا غیر محتاط استعمال میں پھنس گیا ، وہ اپنے ایمان کو کمزور کرنے میں لگ گیا ؛ اس لیے اپنے آپ کو موبائل فتنے سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کریں اور اس کے لیے ہمت درکار ہے، نیز خوف خدا بھی چاہیے، جو تنہائیوں میں بھی گناہوں سے دور رکھ سکے۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں، آمین۔
(۳): حلال وجائز نوکری یا ذریعہ معاش کے لیے آپ روزانہ درج ذیل دعا کم از کم تین سو مرتبہ پڑھیں اور اول وآخر ۱۱، ۱۱/ بار درود شریف بھی پڑھیں۔ اور تجربہ کار لوگوں سے کاروبار یا نوکری کے سلسلہ میں مشورہ بھی لیتے رہیں اور ایسی نوکری یا ذریعہ معاش کی کوشش کریں، جس میں نماز پنجگانہ کی پابندی اور شرعی حدود کی پاس داری بھی ہوسکے۔
اللّٰھُمَّ اکْفِنِيْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِيْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
عن ابن عباسقال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجاً ومن کل ھم فرجاً ورزقہ من حیث لا یحتسب“، رواہ أحمد وأبو داود وابن ماجة (مشکاة المصابیح، باب الاستغفار والتوبة، الفصل الثاني، ص ۲۰۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وعن عليأنہ جاء ہ مکاتب فقال: إني عجزت عن کتابتي فأعني، قال: ألا أعلمک کلمات علمنیھن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لو کان علیک مثل جبل کبیر دیناً أداہ اللہ عنک، قل:”اللھم اکفني بحلالک عن حرامک وأغننی بفضلک عمن سواک“،رواہ الترمذي والبیھقي فی الدعوات الکبیر (المصدر السابق،،باب الدعوات فی الأوقات، الفصل الثاني،ص ۲۱۵، ۲۱۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند