• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 166243

    عنوان: طلبہ کو قرآن خوانی کے لیے بھیج کر اجرت لینا

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: قرآن خوانی پر اجرت لینا فقہائے عظام نے استئجار علی الطاعات کی وجہ سے ناجائز قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ شامی نے اس پر ایک مستقل رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مدرسہ کے طلبہ کو مخصوص وقت کی تعیین کے ساتھ قرآن خوانی کے لئے بھیجا جائے اور اس وقت کے عوض اجرت لی جائے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟ اگر جائز نہیں تو اس رقم کا کیا کیا جائے ؟ نیز قرآن خوانی کے لیے طلبہ پر زبردستی کرنا کیسا ہے ؟ برائے کرم ان سوالات کے مدلل جوابات تحریر فرمائیں۔

    جواب نمبر: 166243

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 182-158/M=2/1440

    (ا تا ۳) اگر مخصوص وقت کی تعیین کے ساتھ طلبہ کو قرآن خوانی کے لئے بھیجا جائے تب بھی اجرت لینا درست نہیں اس لئے کہ قرآن خوانی کا مروجہ اجتماعی طریقہ ہی غیر ثابت و مکروہ ہے، لہٰذا ایصال ثواب کے لئے مروجہ طریقے پر قرآن خوانی کرانے سے اور اس پر اجرت کے لین دین سے بچنا چاہئے، اگر اس پر اجرت لے لی گئی ہے اور مالکان معلوم ہیں تو کسی بھی عنوان سے ان تک رقم پہونچا دی جائے اور نامعلوم ہونے کی صورت میں صدقہ کی نیت سے غریب طلبہ پر خرچ کردی جائے اور قرآن خوانی کے لئے طلبہ پر زبردستی کرنا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند