متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 163323
جواب نمبر: 163323
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1283-157T/H=12/1439
صورت مسئولہ میں جو آپ نے لیز پر مکان لینے کا معاملہ کیا ہے وہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ جمع شدہ رقم جو کہ مالکان مکان پر آپ کا قرض ہے، اس سے آپ کو کرایے کی کمی کا فائدہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو ختم کردیں اور جائز معاملہ کرلیں، جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ ہر مہینے کا معتاد کرایہ متعین کرلیں، جو آپ ہر مہینہ ادا کردیا کریں، اور اپنی جمع شدہ رقم واپس لے لیں، اور اگر جمع شدہ رقم واپس لینا مشکل ہو، تو اس رقم کو پیشگی ادا کیا ہوا کرایہ مان لیں، پھر ہر مہینہ آپ کو کرایہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔
(۲) جو رقم جمع ہے وہ آپ کی ملک میں ہے، لہٰذا حولانِ حول پر زکات کی شرائط کے مطابق زکات واجب ہوگی۔ لیکن جب آپ معاملہ ختم کرکے جمع شدہ رقم کو پیشگی کرایہ کے طور پر مان لیں گے تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ قال محمد فی کتاب الصرف: إن أباحنیفة کان یکرہ کل قرض جرّ منفعة، قال الکرخي ، ہذا إذا کانت المنفعة مشروطة في العقد۔ (ھندیة: ۳/۱۹۱) وأما الذي یرجع إلی نفس القرض فہو أن لایکون جرّ منفعة، فان کان لم یجز (بدائع الصنائع: ۶/۵۱۸) ۔
إلا أن الاعداد للتجارة في الأثمان المطلقہ من الذہب والفضة ثابت بأصل الخلقة؛ لأنہا لاتصلح للانتفاع بأعیانہا في دفع الحوائج الأصلیة فلا حاجة إلی التعیین بالنیة ، فتجب الزکاة فیہا نوی التجارة او لم ینو أصلا أو نوی النفقة۔ (بدائع الصنائع: ۲/۹۲ )
تجب زکاتہا عند قبض أربعین درہما من الدین ۔ (الدر المختار: ۳/۲۳۷) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند