• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 163323

    عنوان: كرایے پرمكان لینے كے جو رقم جمع ہے اس پر زكاۃ ہے یا نہیں؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہم ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کو سات لاکھ روپئے میں لیز پر لیا ہے تین سال کے لیے اور1000کرائے ادا کررہے ہیں، اور تین سال کے بعد وہ سات لاکھ روپئے ہمیں واپس مل جائیں گے توکیا ہم اس مکان میں رہ سکتے ہیں؟ (۲) اور کیا ہمیں اس رقم کی زکاة ادا کرنی ہوگی؟

    جواب نمبر: 163323

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1283-157T/H=12/1439

    صورت مسئولہ میں جو آپ نے لیز پر مکان لینے کا معاملہ کیا ہے وہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے کیونکہ جمع شدہ رقم جو کہ مالکان مکان پر آپ کا قرض ہے، اس سے آپ کو کرایے کی کمی کا فائدہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو ختم کردیں اور جائز معاملہ کرلیں، جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ ہر مہینے کا معتاد کرایہ متعین کرلیں، جو آپ ہر مہینہ ادا کردیا کریں، اور اپنی جمع شدہ رقم واپس لے لیں، اور اگر جمع شدہ رقم واپس لینا مشکل ہو، تو اس رقم کو پیشگی ادا کیا ہوا کرایہ مان لیں، پھر ہر مہینہ آپ کو کرایہ ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

    (۲) جو رقم جمع ہے وہ آپ کی ملک میں ہے، لہٰذا حولانِ حول پر زکات کی شرائط کے مطابق زکات واجب ہوگی۔ لیکن جب آپ معاملہ ختم کرکے جمع شدہ رقم کو پیشگی کرایہ کے طور پر مان لیں گے تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ قال محمد فی کتاب الصرف: إن أباحنیفة کان یکرہ کل قرض جرّ منفعة، قال الکرخي ، ہذا إذا کانت المنفعة مشروطة في العقد۔ (ھندیة: ۳/۱۹۱) وأما الذي یرجع إلی نفس القرض فہو أن لایکون جرّ منفعة، فان کان لم یجز (بدائع الصنائع: ۶/۵۱۸) ۔

    إلا أن الاعداد للتجارة في الأثمان المطلقہ من الذہب والفضة ثابت بأصل الخلقة؛ لأنہا لاتصلح للانتفاع بأعیانہا في دفع الحوائج الأصلیة فلا حاجة إلی التعیین بالنیة ، فتجب الزکاة فیہا نوی التجارة او لم ینو أصلا أو نوی النفقة۔ (بدائع الصنائع: ۲/۹۲ )

    تجب زکاتہا عند قبض أربعین درہما من الدین ۔ (الدر المختار: ۳/۲۳۷) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند