• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 161390

    عنوان: امام اعظم کی رجوع والی عبارت مع ترجمہ اور حوالے کے مطلوب ہے؟

    سوال: کیا آپ امام اعظم کی رجوع والی عبارت مع ترجمہ کے اور حوالے کے بھیج سکتے ہیں عربی کے علاوہ جمعہ کے خطبے کے ؟

    جواب نمبر: 161390

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1140-132T/L=11/1439

    راجح قول یہ ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمة نے غیر عربی زبان میں خطبہٴ جمعہ کے سلسلے میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع نہیں کیا اکثر متون فقہ سے اسی بات کی تائید ملتی ہے البتہ بعض حضرات مثلاً علامہ عینی رحمہ اللہ وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ امام اعظم علیہ الرحمة نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا مگر ان کی عبارت اپنے دعوی پر صریح نہیں ہے بلکہ اس کے اندر احتمال ہے کہ رجوع کا تعلق قرأت کے مسئلے سے ہو اور اگر بالفرض ان کا مقصد یہی ہے کہ امام نے دونوں مسئلوں میں اپنے سابق قول سے رجوع کرلیا تھا تو علامہ عینی رحمہ اللہ سے اس معاملہ میں تسامح ہوا ہے اور اسی سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ امام صاحب نے خطبہٴ جمعہ کے سلسلے میں رجوع کرلیا حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ امام صاحب نے صرف پہلے مسئلے یعنی قرأت بالفارسیة میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع کیا ہے لیکن دوسرے مسئلے یعنی غیر عربی میں تکبیر تحریمہ یا دوسرے اذکار ادا کرنے یا خطبہ جمعہ عربی میں دینے کے بارے میں اپنے قول سے رجوع نہیں فرمایا بلکہ بعض علماء نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ خود صاحبین نے امام صاحب کے قول کی طرف رجوع فرمایا ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ کیجیے وأما الشروع بالفارسیة أو القرائة بہا فہو جائز عند أبي حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ مطلقا وقالا لا یجوز إلا عند العجز وبہ قالت الثلاثة وعلیہ الفتوی وصح رجوع أبي حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ إلی قولہما۔

    ترجمہ: اور بہرحال فارسی زبان میں نماز شروع کرنا یا فارسی زبان میں قرأت کرنا یہ امام صاحب کے یہاں مطلقا جائز ہے اور صاحبین حالت عجز میں اس کے جواز کے قائل ہیں اور اسی بات کے قائل ائمہٴ ثلاثہ ہیں اور اسی پر فتوی ہے اور امام صاحب کا صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرنا ثابت ہے (شرح العینی علی الکنز: ۱/۳۲) علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا اس پر رد وجعل العیني الشروع کالقراء ة لا سلف لہ فیہ ولا سند لہ یقویہ بل جعلہ في التاتارخانیة کالتلبیة یجوز اتفاقا فظاہرہ کالمتن رجوعہما إلیہ لا ہو إلیہما فاحفظہ فقد اشتبہ علی کثیر من القاصرین حتی الشرنبلالي فی کل کتبہ فتنبہ․ (الدر المختار: ۱/۳۵۷-۳۵۸) اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے جو نماز شروع کرنے (فارسی میں تکبیر تحریمہ کہنے) قراء ت کی طرح قرار دیا ہے اس میں ان سے پہلے ان کا کوئی ہم نوا نہیں اور نہ ان کی کوئی سند ہے جو اس بات کی تقویت کرے بلکہ فتاوی تاتارخانیہ میں تکبیر تحریمہ کو تلبیہ کی طرح قرار دیا ہے جو دوسری زبانوں میں بالاتفاق جائز ہے، لہٰذا اس کا ظاہری مقتضی تنویر الابصار کے متن کی طرح یہ ہے کہ اس مسئلے میں صاحبین نے امام صاحب کے قول کی طرف رجوع کیا ہے نہ کہ امام صاحب نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کیا یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کیونکہ اس مسئلے میں بہت لوگوں کو اشتباہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ علامہ شرنبلالی کو بھی علامہ عبد الحی لکھنوی اپنے رسالے میں تحریر فرماتے ہیں والحق أنہ لم یرو رجوعہ في مسئلة بل ہي علی الخلاف فإن أجلة الفقہاء منہم صاحب الہدایة وشراحہا العیني والغنافی والبابرتي والمجبوبي وغیرہم صواحب الجمع وشراحہ وصاحب البزازیة والمحیط والذخیرة وغیرہ ذکروا رجوعہ في مسئلة القراء ة فقط والکتفوا في مسئلة الشروع بحکایة الخلاف (آکام النفائس: ۷۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند