متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 159803
جواب نمبر: 159803
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:849-730/L=7/1439
اللہ تعالی کا چھ دنوں میں دنیا کی تخلیق کرنا یہ انسانوں کی تعلیم کے لیے ہے کہ اہم کاموں کے لیے ایک وقت مقرر کیا جائے اور اس کام کو بتدریج وسہولت انجام دیا جائے ،اللہ رب العزت کو عجلت اور جلدبازی پسند نہیں۔حضرت مفتی شفیع صاحبتحریر فرماتے ہیں:
”اس آیت سے ثابت ہواکہ اہم کاموں کے لیے ایک خاص میعاد مقرر کرنا اور سہولت وتدریج سے انجام دینا سنتِ الہیہ ہے ،عجلت اور جلد بازی اللہ تعالی کو پسند نہیں،سب سے پہلے خود حق تعالی نے اپنے کام یعنی پیدائشِ عالم کے لیے ایک میعاد چھ روز کی متعین فرماکر یہ اصول بتلادیا ہے،حالانکہ اللہ تعالی کو آسمان زمین اور سارے عالم کو پیدا کرنے کے لیے ایک منٹ کی بھی ضرورت نہیں جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کے لیے فرمادیں کہ ہوجا وہ فوراً ہو جاتی ہے مگر اس خاص طرزِعمل میں مخلوق کو یہ ہدایت دینا تھی کہ اپنے کاموں کو غوروفکر اور تدریج کے ساتھ انجام دیا کریں،اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کو تورات عطافرمائی تو اس کے لیے بھی ایک میعاد مقرر فرمائی اس میں اسی اصول کی تعلیم ہے۔(معارف القرآن:۴/۵۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند