• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 159671

    عنوان: زیارتِ قبور کے لیے سفر کا حکم؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں: کیا اپنے گھر سے بالخصوص کسی قبر کی زیارت کرنے کی نیت سے سفر کرنا شرعاً کیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاح فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 159671

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:736-130T/sn=8/1439

    جس طرح زیارتِ قبور شرعاً جائز ہے اس طرح کسی خاص شخص کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا بھی جائز ہے، ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس سلسلے میں بخاری وغیرہ کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین مساجد کے لیے شد رحال یعنی سفر کی اجازت دی ہے، اس حدیث سے زیارتِ قبول کے لیے سفر کی ممانعت پر استدلال درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ روئے زمین پر صرف تین ہی مسجدیں خصوصی فضیلت کی حامل ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام مسجدیں مساوی درجے کی ہیں تو کسی اور خاص مسجد کی طرف سفر کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے، رہے مشاہد اور قبریں تو ان کا معاملہ مساجد سے مختلف ہے، اس سلسلے میں مزید توجیہات وتفصیلات کے لیے فتح الباری، مرقاة المفاتیح اور دیگر معتبر شروح حدیث دیکہیں۔ وفی الإحیاء: ذہب بعض العلماء إلی الاستدلال بہ علی المنع من الرحلة لزیارة المشاہد وقبور العلماء والصالحین، وما تبین فی أن الأمر کذلک، بل الزیارة مأمور بہا لخبر: (کنت نہیتکم عن زیارة القبور ألا فزوروہا)․ والحدیث إنما ورد نہیا عن الشد لغیر الثلاثة من المساجد لتماثلہا، بل لا بلد إلا وفیہا مسجد، فلا معنی للرحلة إلی مسجد آخر، وأما المشاہد فلا تساوی بل برکة زیارتہا علی قدر درجاتہم عند اللہ الخ (مرقاة المفاتیح مع المشکاة، رقم: ۶۹۳)

    -----------------------

    جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ برزگان دین کی جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہو اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں، وہاں زیارت کے لیے نہیں جانا چاہیے؛ بلکہ اپنے مقام ہی پر رہ کر ایصالِ ثواب وغیرہ پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ (ن)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند