• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 158238

    عنوان: کیا مکہ و مدینہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کی زیارت کے لیے جانا کیسا ہے؟

    سوال: آج کل کافی لوگ بغداد ایران اور اجمیر وغیرہ زیارات کے لیے جاتے ہیں اور ایسا کرنے کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں جبکہ میں نے ایک حدیث پڑھی یے جس کے مطابق ایسا کرنا حرام ہے لیکن مجھے اس حدیث کا حوالہ یاد نہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 158238

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 512-476/M=5/1439

    بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے کہ: ”لا تُشَدّ الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي ہذا، والمسجد الأقصی“ اس کے متعلق حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”اور حدیث لا تشد الرحال کا تعلق زیارت قبور سے نہیں بلکہ اجر وثواب زیادہ حاصل کرنے کی نیت سے مساجد ثلاثہ کے علاوہ دیگر مساجد کے لیے سفر کرنے سے ہے“۔ (امداد الفتاوی)

    حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین اور مسجد اقصی کے علاوہ بقیہ تمام مساجد برابر ہیں ان کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں، اس لیے حرم مکہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کو چھوڑکر کسی ملک مثلاً ایران، بغداد کی زیارت کے لیے جانا یا کسی پیر بزرگ کے مزار پر حاضر ہونا فی نفسہ ممنوع نہیں لیکن دیگر مقامات کی زیارت کو باعث اجر وثواب سمجھنا غلط ہے، اسی طرح اولیائے کرام کے مزاروں پر عرس اور میلوں کے موقع پر جانے سے بھی بچنا چاہیے تاکہ غیرشرعی رسومات کی رونق بڑھانے میں اعانت نہ پائی جائے۔ شامی میں ہے:

    وفی الحدیث المتفق علیہ ”لا تشد الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ہذا والمسجد الأقصی" والمعنی کما أفادہ في الإحیاء أنہ لا تشد الرحال لمسجد من المساجد إلا لہذہ الثلاثة لما فیہا من المضاعفة، بخلاف بقیة المساجد فإنہا متساویة فی ذلک، فلا یرد أنہ قد تشد الرحال لغیر ذلک کصلة رحم وتعلم علم وزیارة المشاہد کقبر النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - وقبر الخلیل - علیہ السلام - وسائر الأئمة (شامی زکریا: ۴/۵۵، باب الہدی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند