• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 157129

    عنوان: اپنا مفوضہ كام جلد ختم كركے مالك كی اجازت كے بغیر ڈیوٹی كے اوقات میں گیم كھیلنے والے كی تنخواہ كیسی ہے؟

    سوال: (۱) حضرت، میں کمانہیں سکتا کچھ وجہوں سے دو مہینے تک۔ میرے دو بھائی ہیں، ایک کی تنخواہ 30 ہزار ہے اور ڈیوٹی کا وقت بارہ گھنٹے ہیں پر وہ جلدی کام ختم کر لیتا ہے تین چار گھنٹے میں، پھر کمپنی کی اجازت کے بغیر وہ ۶/ گھنٹے گیم کھیلتا ہے اور ایک گھنٹہ سوتا ہے اجازت کے بغیر، اس کے شعبہ کے ایچ، او، ڈی ( ناظم شعبہ) کو تو کوئی اعتراض نہیں پر کمپنی کے مالک نے اجازت نہیں دی گیم کھیلنے کی، تو کیا اب اس کی آمدنی حلال ہے؟ (۲) میرے دوسرے بھائی کی 25000 کی حلال نوکری ہے پر وہ فلم ایڈیٹنگ ، مووی ٹریلر ایڈیٹنگ پر زیادہ تر اس کے پاس اشتہارات (کاروباری/ تجارتی) بنانے کے آفر آتے ہیں جس سے وہ الگ سے 35000-40000 ہزار کماتے ہیں، کیا اِس والے کی آمدنی حلال ہے؟ ان کو سمجھاوٴ تو کہتے ہیں کہ میں اشتہارات بناتا ہوں اس میں کیا حرام ہے․․․․․ اس کے بارے میں مفتی صاحب بتائیں کہ اشتہارات بنانا حلال ہے؟ (کمپیوٹر پر بناتے ہیں وہ) ۔ (۳) میری والدہ کو الگ سے 25000 ملتے ہیں کہیں سے ہر ماہ جو حلال ہے ․․․․․ اب مفتیان کرام بتائیں کہ کیا میں اس گھر میں رہ سکتا ہوں جہاں دونوں بھائی اور والدہ کی آمدنی آتی ہے۔ واضح رہے کہ میں مجبور ہوں، میرے پاس کوئی اور گھر نہیں، اگر مفتیان کرام منع کرتے ہیں تو پھر سڑک کے سوا اور کوئی جگہ نہیں میرے پاس رہنے کو۔

    جواب نمبر: 157129

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:322-284/D=4/1439

    (۱) اگر آپ کے بھائی پورے بارہ گھنٹے کمپنی میں ہی گزارتے ہیں اور صحیح طریقہ پر کام بھی پورا کرتے ہیں تو ان کی آمدنی حلال ہے،البتہ کام پورا کرنے کے بعد مالک کی اجازت کے بغیر گیم وغیرہ کھیلنا جائز نہیں، اس لیے کہ اس میں مالک کو دھوکا دینا ہے اور اپنے وقت کا ضیاع ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

    (۲) فلم ایڈیٹنگ کے اشتہارات بنانا ایک حرام کام ہے اوراس کی آمدنی بھی حرام ہے؛ اس لیے اس سے کلی اجتناب کریں۔

    (۳) جب مجموعی آمدنی کا اکثر حصہ حلال ہے تو آپ کے لیے گھر میں رہنے میں کوئی حرج نہیں۔

    والثاني: وہو الأجیر الخاص ویسمی أجیر واحد، وہو من یعمل لواحد عملاً موقّتا بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدة وإن لم یعمل کمن استوٴجر شہرًا للخدمة أو شہرًا لرعي الغنم․․․․ (الدر مع التنویر: ۹۴۹، ط: زکریا/ دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند