• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 157066

    عنوان: دو ملکوں کے درمیان بیع کا جو طریقہ رائج ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

    سوال: عورتوں کا بلا عذر نوکری کرنا کیسا ہے ؟ کن کن حالات میں وہ نوکری کرسکتی ہے اور اس کی شرعی وضاحت آج کل مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ گھر میں بھائی بھی ہوتا ہے اور باہ بھی ہوتا ہے اور یہ صاحبہ ایٹی کمپنی نوکری کرتی ہے اور ایسے کالج جہاں نا محرم مرد بھی ہوتیں یہ نوکری کرنا کیسا ہے ؟ اور لڑکیوں کو کالج اور سکولوں میں پڑھانا اور یہ حیلہ بولنا کہ اگر یہ نہیں پڑھے گی تو ژچہ دانی کہ لئے طبیبہ کہاں سے لاؤ گے ؟ ۲) یہ کہ اس دور میں جو ملک ملک کے درمیان بیع کا طریقہ ہے وہ کس طرح ہے ۔صرف نمبروں کا کھیل ہے ۔ اس کے مطالق کوئی کتاب جو مکمل اسلامی بیع پر مشتمل ہو۔ عمران ناظر حسن ٹرینڈاڈ افریقہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے ،حتی کہ کاغذ کی کرنسی کو بھی حران قرار دیتے ہے ۔اور کہتے ہیں کہ حج و صدقہ بھی قبول نہ ہوگا اس پر بھی برائے مہربانی نظر ڈالی http://youtu.be/W4OfImQCDwk یہ ان کا بیاں ہے انگریزی میں۔

    جواب نمبر: 157066

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 343-412/N=5/1439

    (۱): شریعت نے عورتوں کے ذمہ کمانا نہیں رکھا ہے، عورت جب تک بیٹی ہو، اس کا خرچہ باپ کے ذمہ ہوتا ہے اور جب شادی ہوجائے تو شوہر کے ذمہ اور جب شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیٹوں کے ذمہ ہوتا ہے ؛ اس لیے محض وسعت وفراوانی کے لیے عورت کا کمائی کے لیے گھر سے باہر نکلنا مکروہ ہے بالخصوص موجودہ پر فتن دور میں۔ اور اگر واقعی عذر ومجبوری ہو تو عورت شوہر یا ولی کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ کماسکتی ہے ۔ شرعی حدود کا مطلب یہ ہے کہ عورت جس جگہ ملازمت کرے، وہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو، نیز وہاں پردے کے ساتھ رہے اور آنے جانے میں بھی پردہ کا اہتمام کرے اور اگر تنہا آنے جانے میں فتنہ کا خطرہ ہے جیسا کہ آج کل یہ بات عام ہے تو اپنے شوہر یا بھائی وغیرہ کے ساتھ آنا جانا کرے، وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر عورت ایسی جگہ ملازمت کرتی ہے جہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے یا بے پردگی کا عام ماحول ہے یا عورت کی عصمت وآبرو کو خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ تو عورت کے لیے اس طرح کی ملازمت کرنا جائز نہ ہوگا، عورت کے لیے عفت وعصمت کی حفاظت اور شرعی حدود کی رعایت زیادہ اہم اور ضروری ہے۔

    قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۵۹)، قال أبو بکر: في ہذہ الآیة دلالة علی أن المرأة الشابة مأمورة بسترة وجہھا عن الأجنبیین۔ (أحکام القرآن للجصاص ۳:۳۷۲)۔وقال اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ: ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاُوْلٰی﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۳۳)۔ قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین إذا أخرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق رؤوسہن بالجلابیب، ویبدین عینًا واحدة۔ (تفسیر ابن کثیر ۱۰۸۳)۔عن ابن مسعودعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفہا الشیطان رواہ الترمذي (مشکاة المصابیح، کتاب النکاح،باب النظر إلی المخطوبة، الفصل الثاني،ص: ۲۶۹ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔قولہ ”استشرفہا الشیطان“ أي زینہا في نظر الرجال والمعنی: أن المرأة یستقبح بروزہا وظہورہا فإذا خرجت أمعن النظر إلیہا لیغویہا بغیرہا، ویغوي غیرہا، بہا لیوقعہا، أو أحدہما في الفتنة۔ (تحفة الأحوذي ۴/۲۸۳المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجہ بین الرجال، لا لأنہ عورة؛ بل لخوف الفتنة (الدر المختار مع رد المحتار ۲:۷۹ط مکتبة زکریا دیوبند)،ولایأٴذن بالخروج إلی المجلس الذی یجتمع فیہ الرجال والنساء وفیہ المنکرات الخ فلا یحضر ولا یأذن لھا فإن فعل یتوب للہ تعالی (الفتاوی البزازیة علی ہامش الفتاویٰ الھندیة ۴:۱۵۷ط مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): دو ملکوں کے درمیان بیع کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ آپ کے ذہن میں کیا کوئی خاص طریقہ ہے؟ براہ کرم! جو طریقہ آپ کے ذہن میں ہو، اس کی مکمل تفصیل لکھ کر سوال کریں۔ اور اس سلسلہ میں عمران ناظر حسن صاحب کے بیان کا ضروری خلاصہ اردو میں لکھ کے ارسال کریں۔ اس کے بعد إن شاء اللہ تعالی آپ کے اصل سوال کا جواب تحریر کیا جائے گا۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند