متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 156527
جواب نمبر: 156527
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:107-193/D=3/1439
دُفّ سے ایسی ڈفلی مراد ہے جس میں ایک طرف چمڑا چڑھا ہوا ہو، اور اس میں گھنگرو وغیرہ نہ ہو، الدف ما یکون مجلَّدا من جانب واحد (العرف الشذي) ایسا دف اعلانِ نکاح کے لیے بجانا درست ہے، حدیث میں اس کی اجازت آئی ہے، أعلنوا النکاح ولو بالدفّ (الحدیث) ولا باس أن یکون لیلة العرس دف یضرب بہ لیعلن بہ النکاح (الشامیة)
(۲) مروجہ آلات موسیقی اگرچہ شکلاً دف میں داخل ہوجائیں، مگر چوں کہ ان میں گانا، باجا ساز وغیرہ پایا جاتا ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ بعثني رحمة وہُدیً للعالمین وأمرني أن أمحق المزامیر والکنارات․․․ الخ (مسند احمد/ ۲۲۲۱۸) یعنی: اللہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام ”مزامیر“ (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
(۳) گانے بجانے اور گھنگرو والا دف مرد اور عورت سب کے لیے ناجائز ہے۔ اور جو دف اعلانِ نکاح کے لیے ہے وہ شرائط کے ساتھ جس طرح عورتیں بجاسکتی ہیں مرد بھی بجاسکتے ہیں۔
(۴،۵) یہ سب ناجائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاماتِ قیامت میں گانے باجے کی کثرت کو بھی ارشاد فرمایا ہے۔ (مشکاة شریف) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، صوت اللہو والغناء تینبت النفاق في القلب کما بنبت الماء النبات، یعنی لہو ولعب اور گانا باجا دل کے اندر نفاق پیدا کردیتا ہے، جیسا کہ پانی زمین میں گھاس اگادیتا ہے۔
(۶،۷) سوال کی نوعیت واضح ہونے کے بعد جواب لکھا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند