• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 149520

    عنوان: نماز چھوڑکر درود وغیرہ پڑھنا کیا قابل قبول ہوگا؟

    سوال: ایک شخص فرض نماز بالکل نہیں پڑھتا لیکن درودِ پاک بہت زیادہ پڑھتا ہے کیا اُس کا درود پڑھنا قبول ہوگا؟ اُس کو درود پڑھنے کا آخرت میں کچھ فائدہ ہو گا؟

    جواب نمبر: 149520

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  550-513/N=6/1438

    اگر یہ شخص نماز پنجگانہ کی فرضیت کا قائل ہے ، یعنی: مسلمان ہے تو اس کا درود شریف پڑھنا کسی نہ کسی درجے میں بلاشبہ قبول ہوگا اور آخرت میں کچھ نہ کچھ اس کا فائدہ ضرور ہوگا؛ البتہ فرض نماز نہ پڑھنا شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے ، بعض احادیث میں آدمی کے درمیان اور کفر وشرک کے درمیان صرف نماز کی آڑ ہوتی ہے اور ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایسے شخص کا حشر قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا اور ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ جان بوجھ کر کوئی فرض نماز چھوڑنے والے سے اللہ کا ذمہ بری ہے اور بعض ائمہ نے تارک نماز کو(اسلامی حکومت میں) واجب القتل قرار دیا ہے اور بعض نے تو کافر تک قرار دیا ہے؛ اس لیے اس کا نماز نہ پڑھنا سخت ترین گناہ ہے ، ممکن ہے کہ نماز نہ پرھنے کی وجہ سے دردو شریف کی کثرت کا اثر اخروی عذاب میں محض تخفیف کا باعث ہو، کامل نجات اور درجات کی بلندی بالکل حاصل نہ ہو ۔ اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائیں۔ عن جابرقال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إن بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلاة (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاة ، ۱: ۶۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔عن عبد اللہ بن عمرو بن العاصعن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ ذکر الصلاة یوماً فقال:…… ومن لم یحافظ علیھا لم تکن لہ نوراً ولا رھاناً ولا نجاة وکان یوم القیامة مع قارون وفرعون وھامان وأبي بن خلف، رواہ أحمد والدارمي والبیھقي في شعب الإیمان، وعن عبد اللہ بن شقیق قال: کان أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یرون شیئاً من الأعمال ترکہ کفر غیر الصلاة، رواہ الترمذي وعن أبی الدرداء قال: ”أوصاني خلیلي أن لا تشرک باللہ شیئاً وإن قطعت وحرقت ولا تترک صلاة مکتوبة متعمداً فمن ترکھا متعمداً برئت منہ الذمة……“،رواہ ابن ماجة (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، الفصل الثالث، ص ۵۸، ۵۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔وأما تارک الصلاة فإن کان منکراً لوجوبھا فھو کافر بإجماع المسلمین خارج من ملة الإسلام، ……،وإن کان ترکہ تکاسلاً مع اعتقادہ وجوبھا کما ھو حال کثیر من الناس فقد اختلف العلماء فذہب مالک والشافعي والجماہیر من السلف والخلف إلی أنہ لا یکفر بل یفسق ویستتاب فإن تاب وإلا قتلناہ حدا کالزانی المحصن ولکنہ یقتل بالسیف وذھب جماعة من السلف إلی أنہ یکفر وھو مروي عن علي بن أبي طالب وھو إحدی الروایتین عن أحمد بن حنبل…،وذھب أبو حنیفة وجماعة من أھل الکوفة والمزني صاحب الشافعي إلی أنہ یکفر ولا یقتل بل یعزر ویحبس حتی یصلي (شرح النواوي علی الصحیح لمسلم، ۱: ۶۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند