• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 6932

    عنوان:

    ایک آدمی نے اپنے کسی رشتہ دار کو 50,000 روپیہ دیا اور شرط لگائی کہ دو مہینہ کے بعد واپس نہیں کیا تو ہر مہینہ پانچ فیصد جرمانہ لگے گا۔ اور اب تک پانچ فیصد ہر مہینہ جرمانہ لے رہا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ اس کا یہ کام سود میں داخل ہے یانہیں؟ (الف) اپنوں سے قرض وصول کرنے کا یہ طریقہ کیسا ہے؟ (ب) اگر یہ غلط ہے تو جائز طریقہ کیا ہے؟

    سوال:

    ایک آدمی نے اپنے کسی رشتہ دار کو 50,000 روپیہ دیا اور شرط لگائی کہ دو مہینہ کے بعد واپس نہیں کیا تو ہر مہینہ پانچ فیصد جرمانہ لگے گا۔ اور اب تک پانچ فیصد ہر مہینہ جرمانہ لے رہا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ اس کا یہ کام سود میں داخل ہے یانہیں؟ (الف) اپنوں سے قرض وصول کرنے کا یہ طریقہ کیسا ہے؟ (ب) اگر یہ غلط ہے تو جائز طریقہ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 6932

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 735=735/ م

     

    وقت مقررہ پر فرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں قرض خواہ سے بطور جرمانہ، ہرماہ پانچ فیصد رقم، وصول کرنا، یہ بلاشبہ سود ہے، لقولہ علیہ السلام: کل قرض جر نفعًا فھو ربا (الحدیث)

    (الف)، (ب) قرض وصول کرنے کا یہ طریقہ ناجائز ہے، اپنوں سے ہو یا غیروں سے، جائز طریقہ یہ ہے کہ قرض خواہ سے جرمانہ وغیرہ بھرنے کی کوئی شرط نہ لگائی جائے اور نہ کوئی جرمانہ وصول کیا جائے، اگر قرض خواہ تنگدست و مفلس ہو تو اس کو مزید مہلت دی جائے، جتنا قرض دیا ہے اتنا ہی مطالبہ کیا جائے۔ اوراگر قرض خواہ غنی ومالدار ہو، اور بلاوجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کررہا ہو، تو مُقرض، اپنا جنس حق کسی بھی جائز تدبیر سے وصول کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند