• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 61811

    عنوان: ہمارے یہاں پیسوں پہ کوئی بھی ڈیوٹی مل جاتی ہے ، بغیر یسوں کے اگر کسی بڑے آدمی کی سفارش ہو تو ملتی ہے ، کیا یہ ڈیوٹی پیسوں سے خریدنا صحیح ہے یا غلط؟اور اس سے کمائے ہوئے پیسے حرام ہوں گے یا حلال؟

    سوال: ہمارے یہاں پیسوں پہ کوئی بھی ڈیوٹی مل جاتی ہے ، بغیر یسوں کے اگر کسی بڑے آدمی کی سفارش ہو تو ملتی ہے ، کیا یہ ڈیوٹی پیسوں سے خریدنا صحیح ہے یا غلط؟اور اس سے کمائے ہوئے پیسے حرام ہوں گے یا حلال؟

    جواب نمبر: 61811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 913-878/Sn=1/1437-U ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعن اللہ الراشي والمرتشي والرائش وہو الذي یمشي بینہما (شرح مشکل الآثار: ۵۶۵۶) یعنی رشوت دینے والا، رشوت لینے اور رشوت کا واسطہ بننے والا ہرایک پر اللہ کی لعنت ہے؛ اس لیے رشوت دے کر کوئی کام یا نوکری حال کرنا جائز نہیں ہے؛ہاں اگر کوئی شخص اہل ہے اور متعلق شعبہ کے قواعد وضوابط کی رو سے اسے کام ملنا چاہیے؛ لیکن افسران پیسے (رشوت) لیے بغیر کام نہیں دیتے تو ایسی صورت میں مجبوراً رشوت دے کر کام یا نوکری حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کا وبال لینے والے پر ہوگا۔ (۲) اگر رشوت کے ذریعے نوکری حاصل کرنے والا شخص مفوضہ کام کی اہلیت رکھتا ہے نیز جو ڈیوٹی اس کے سپرد ہے اسے بہ حسن وخوبی انجام دیتا ہے، اس میں خیانت نہیں کرتا ہے تو اس سے کمائے ہوئے پیسے (تنخواہ) اس کے لیے حرام نہیں ہے، استعمال کرسکتا ہے اگرچہ رشوت دینا اس کے لیے ناجائز رہا ہو؛ اس لیے کہ تنخواہ اجرتِ عمل ہے اور یہاں عمل موجود ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند