• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 59909

    عنوان: خریداری پر ضمان ڈالنا

    سوال: ہماری کمپنی کے خریدار حضرات مختلف دکانوں سے کمپنی کی چیزیں خریدکر لاتے ہیں لیکن بسااوقات ان سے کوئی چیزادھرادھرہوجاتی ہے جسکا ضمان ہم ان سے وصول کرتے ہیں اور ان کاعذرہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ہمیں یہ گمان ہوتاہے کہ شاید اس نے وہ چیزبل میں ویسی ہی لکھوالی ہواوراس کے پیسے کمپنی سے لیکرخود اپنے پاس رکھ لے ،آیاہرصورت میں خریدار حضرات پر مطلقاضمان ڈالنادرست ہے بغیراس کی تعدی معلوم کئے ؟جیساکہ امام ابویوسف کامذہب ہے کہ آج کل فسادزمانہ کی وجہ سے مطلقاًان سے ضمان وصول کیاجاسکتاہے ۔ وبقولہما یفتی الیوم لتغیر أحوال الناس وبہ یحصل صیانة أموالہم. کذا فی التبیین یااس کے حل کے لئے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ خریدارپرعدم تعدی کاثبوت ڈال دیاجائے کہ تم یہ ثابت کردوکہ تمہاری تعدی کے بغیر وہ چیز غائب ہوگئی ہے ۔اس سلسلہ میں رہنمائی فرماکرعند اللہ ماجور ہوں۔ یہ سوال 2012 میں بھیجاتھا،اس کا جواب ابھی تک موصول نہیں ہوسکا،مہربانی فرماکرجواب عنایت فرمادیں،جزاک اللہ

    جواب نمبر: 59909

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 719-684/Sn=10/1436-U کمپنی کے شعبہٴ خرید وفروخت کے جو تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں، وہ اجیر خاص ہوتے ہیں، ان کے ذمہ صرف کمپنی سے متعلق خریداری کا کا ہوتا ہے اور اجیر خاص بلاشبہ ”امین“ ہوتا ہے، اس کے بارے میں احناف کے تینوں ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، آپنے جو عبارت ذکر کی ہے، یہ ”اجیر مشترک“ مثلاً دھوبی، میکانک، درزی جن کے پاس بہت سے لوگ اپنی چیزیں دیتے ہیں؛ تاکہ ان پر وہ کام کریں)؛ اس لیے صورت مسئولہ میں کمپنی کے خریدار حضرات سے اگر کوئی چیز ضائع ہوجائے اور اس میں ان کی طرف سے کوئی تعدی نہیں پائی گئی تو ان پر ضمان لازم نہ ہوگا، اور اس سلسلے میں قسم کے ساتھ ان کی بات معتبر ہوگی الا یہ کہ کمپنی کے ذمے داران شرعی ثبوت کے ذریعے ان کی تعدی کو ثابت کریں، عدم تعدی کے ثبوت کی ذمے داری ان پر ڈالنا صحیح نہ ہوگا، کمپنی اپنے طور پر اس کی نگرانی کرے تاکہ یہ لوگ جھوٹ اور فراڈ نہ کرسکیں۔ ولا یضمن ما تلف في یدہ أو بعملہ، أما الأول ففأن العین أمانة في یدہ؛ لأنہ قبضہا بإذنہ، وہذا عند أبي حنیفة رحمہ اللہ ظاہر، وکذا عندہما؛ لأن تضمین الأجیر المشترک کان نوع استحسان عندہما صیانةً لأموال النّاس؛ لأنہ یتقبّل ا لأعمال من خلق کثیر رغبة في کثرة الأجرة إلخ (تبیین الحقائق، ۵/ ۱۳۸، باب ضمان الأجیر، ط: بولاق)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند