• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 59367

    عنوان: زید ایک ادارے میں کام کرتاہے اور وہ کچھ پروجیکٹ پر کام کرنے کا اہل بھی ہے، اسے ایک پروجیکٹ ملتاہے اور وہ اس پروجیکٹ کو کسی دوسرے شخص یعنی بکر کو دے گا ، اصل کام بکر کرے گا مگر زید پروجیکٹ اور معاوضہ لینے میں اصل ہوگا تو کیا یہ جائز ہے کہ معاوضہ میں سے 84فیصد بکر کو دیا جائے اور 16فیصد زید رکھ لے؟

    سوال: زید ایک ادارے میں کام کرتاہے اور وہ کچھ پروجیکٹ پر کام کرنے کا اہل بھی ہے، اسے ایک پروجیکٹ ملتاہے اور وہ اس پروجیکٹ کو کسی دوسرے شخص یعنی بکر کو دے گا ، اصل کام بکر کرے گا مگر زید پروجیکٹ اور معاوضہ لینے میں اصل ہوگا تو کیا یہ جائز ہے کہ معاوضہ میں سے 84فیصد بکر کو دیا جائے اور 16فیصد زید رکھ لے؟ جب کہ بکر کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیا زید کے لیے یہ معاوضہ لینا حلال ہے؟ اور کیا شریعت کی روشنی میں اس طرح کا معاملہ /سمجھوتہ کرنا درست ہے؟

    جواب نمبر: 59367

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 497-462/Sn=7/1436-U اگر سوال کا منشا یہ ہے کہ زید ایک ادارے سے منسلک ہے، وہاں سے اسے کا م ملتا ہے، زید کام لے کر خود نہ کرکے بکر سے کراتا ہے، پھر زید اپنے نام سے وہ کام (پروجیکٹ) ادارے کے حوالے کرتا ہے اور اس پر جو ”معاوضہ“ ملتا ہے اس میں سے زید کچھ رکھ کر مابقیہ بکر کو دیدیتا ہے۔ تو صورتِ مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ اگر زید بکر کے ساتھ معاملہ کرتے وقت کام کی مکمل تفصیل بتلادیتا ہے کہ کام کس طرح کا ہونا ہے، کب تک ہونا ہے وغیرہ نیز بکر کو کیا معاوضہ ملے گا حتمی طور پر اس کو بھی طے کردیتا ہے تو زید کے لیے اس طرح معاملہ کرنا درست ہے اور اس کے لیے یہ معاوضہ بھی حلال ہے، ہدایہ میں ہے: والمعقود علیہ العین دون العمل حتی لو جاء بہ مفروغًا عنہ لا من صنعتہ أو من صنعتہ قبل العقد جائز (ہدایہ: ۳/۸۴، باب السّلم، ط: مصطفائی) ’فتاوی ہندیہ“ میں ہے: والأصح أن المعقود علیہ المستصنع فیہ ولہذا لو جاء بہ مفروغًا عنہ لا من صنعتہ أو من صنعتہ قبل العقد جاز کذا في الکافي (ہندیہ، ۳/۲۰۸، زکریا) نوٹ: صورت مسئلہ کچھ اور ہو تو مکمل وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند