• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 58379

    عنوان: صلح اور طلاق

    سوال: میرے بھائیوں نے میری بیوی پر ناجائز تہمت لگائے جو ثابت نہ کر سکے جس پر ہماری بات چیت بند ہوگی بعد میں بھائیوں نے معافی مانگنے اور صلح کی کوشش کی مگر صلح نہ ہو سکا اور اب دوبارہ چند بڑے صلح کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک بھائ کھتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ اگرمیں نے ان سے صلح کی تو مجھ پر بیوی طلاق ہوگی اب اگر صلح ہوگئ تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور اگر صلح نہیں ہوگی تو گنہگار کون ہوگا وہ جس نے طلاق ڈالی یا میں؟

    جواب نمبر: 58379

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 679-704/L=6/1436-U (۱) اگر آپ کے بھائی نے طلاق کو صلح پر معلق کیا ہے تو صلح ہونے کی صورت میں ان کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی مگر یہ طلاق رجعی ہوگی جس میں ان کو تاوقت عدت رجعت کا اختیار ہوگا، وإذا أضافہ إلی الشرط وقع عقیب الشرط مثل أن یقول لامرأتہ: إن دخلت الدار فأنت طالق․ (ہدایہ: ۲/۳۸۵) (۲) صلح میں خیر اور بھلائی ہے، اس لیے باہم معافی تلافی کرکے صلح کرلینا ہی بہتر ہے، اور جب معاملہ بھائیوں کا ہے تو صلح نہ کرنے کی صورت میں قطع رحمی کا بھی گناہ ہوگا، جو شخص صلح پر آمادہ نہ ہوگا وہی گنہ گار بھی ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند