• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 57456

    عنوان: قرض حسنہ نہ ملے

    سوال: میں اس وقت سعودی عربیہ میں کام کررہا ہوں۔ انڈیا میں میرے اوپر کچھ قرض ہیں ان کو ادا کرنے کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ کچھ قرض تو میں نے اس امید پر لیے ہیں کہ میں اگلے مہینہ ان کو ادا کردوں گا۔ میں نے بینک سے پرسنل لون کے بارے میں بات کی۔ وہ لوگ مجھ کو پیسہ دینے پر تیارہیں لیکن فکس منافع پر۔ مجھ سے یہ کہا گیا کہ جو زائد پیسہ وہ لوگ لیں گے وہ ربوا نہیں ہے بلکہ ایک منافع/ سروس چارج ہے جو کہ وہ لوگ لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ شریعت سے ہم آہنگ ہے اور اسلامی اصول کے مطابق ہے۔ اگر میں قرض نہیں لیتا ہوں تو مجھ کو اپنا انڈیا کا مکان فروخت کرنا پڑے گا قرض کی ادائیگی کے لیے۔ براہ کرم مجھ کو جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 57456

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 211-178/Sn=4/1436-U اگر کوئی اسلامی مالیاتی ادارہ لوگوں کو قرض حسنہ فراہم کرتا ہے اور اس پر کوئی سود نہیں لیتا؛ البتہ قرض جاری کرنے اور کارڈ وغیرہ محفوظ رکھنے کے جو واقعی اخراجات ہوتے ہیں، وہ قرض خواہوں سے وصول کرتا ہے تو اس طرح کے ادارے سے قرض لینے کی گنجائش ہے، بہ شرطے کہ قرض خواہوں سے لی جانے والی رقم واقعی اخراجات کے تناسب سے ہو، یہ سود حاصل کرنے کا حیلہ نہ ہو۔ (مستفاد از کفایت المفتی: ۸/ ۱۳۰-۱۳۱، اور غیر سودی بینکاری: ۲۰۱)؛ لیکن صورت مسئولہ میں جس بینک سے آپ کی بات چیت ہوئی اس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ وہ جو ”فکس منافع“ لیتا ہے، اس کی کیا شکل ہوتی ہے؟ اسے ”سروس چارج“ کس بنیاد پر کہا جاتا ہے؟ سروس چارج کا حساب کس طرح کیا جاتا ہے؟ نیز قرض خواہوں کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں بینک کیا کارروائی کرتا ہے؟ الغرض اجرائے قرض کے حوالے سے بینک کا مکمل طریقہٴ کار قابل اعتماد ذریعے سے جب تک ہمیں معلوم نہ ہو تب تک مذکور فی السوال بینک سے لین دین کے حوالے سے کوئی حتمی حکم نہیں لکھ سکتے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند