• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 56827

    عنوان: قرض حسنہ واپس کرنے کے احکام

    سوال: برطانیہ میں بے شمار لوگوں نے ایک علمائ کی چلائی ہوئی اسلامی تنظیم کو ۲۰۰۵ اور ۲۰۱۰ کے درمیان دس لاکھ پاوند کے قریب قرض حسنہ دیا۔ پچھلے چند سالوں سے بہت سے قرض دینے والوں نے اپنی امانتوں کا مطالبہ کیا۔افسوس کی بات کے یہ تنظیم ان حضرات کے فون کا جواب نہیں دیتی اور انکے ساتھ بات چیت یا ملاقات کیلئے آمادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ بہت سو کو صاف منع کیا گیا کہ قرض دی یوئی رقم واپس نہیں ملیگی حالانکہ تنظیم کے پاس ذرائع ہے کہ رقم حقداروں تک پہنچائے۔عوام میں اسکا بہت منفی اثر ہے، علمائ اور دینی اداروں پر اعتماد کم ہورہا ہے قرض حسنہ کو واپس کرنیکا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ دینی اداروں کیلئے قرض کی رقم واپس دینا ضروری نہیں؟ نیز شریعت میں قرض دینے والوں کو نہ ملنے اور انکے فون کا جواب نہ دینے اور بد سلوکی اور نشانہ بنانے کا کیا حکم ہے؟ اگر تمام وسائل کو اختیار کرنے کے بعد کوئی اسلامی تنظیم قرض دینے والوں سے بات چیت پر آمادہ نہ ہو ، تو کیا قرض دینے والے حضرات محکمہ اور کورٹ کے ذریعہ اپنا حق وصول کرسکتے ہے یا نہیں؟ جو علمائ کرام تنظیم چلارہے ہیں انکی کیا شرعی ذمہ داریاں ہے؟ موسی حسین ، یوکے

    جواب نمبر: 56827

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 83-49/Sn=2/1436-U قرض بلاشبہ حقوق العباد میں سے ایک حق ہے، قرض لینے والے (خواہ اشخاص ہوں یا ادارہ) پر ضروری ہے کہ حسب وعدہ قرض خواہوں کو ان کا قرض واپس کرے، اگر کوئی شخص وسعت کے باوجود قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے تو وہ سخت گنہ گار ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ظلم قرار دیا، ”مطلب الغني ظلم“ اگر کوئی قرض لینے کے بعد ٹال مٹول کرتا ہے، ادا نہیں کرتا تو قرض خواہوں کے لیے جائز ہے کہ جبرا وصول کریں، نیز بوقت ضرورت عدالت کا بھی سہارا لے سکتے ہیں، ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں نے ایک شخص کے بارے میں شکایت کی تو آپ نے اسکا تمام مال فروخت کردیا؛ تاکہ اس سے لوگوں کا قرض ادا کیا جائے، وروي أن معاذا کان یدان فأتی غرماؤہ إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فباع النبي صلی اللہ علیہ وسلم مالہ کلہ في دینہ حتی قام معاذ بغیر شیء․ (مشکاة المصابیح، باب الإفلاس والإنظار)؛ البتہ کوئی شخص یا ادارہ اگر تنگی کا شکار ہے؛ اس لیے وہ قرض نہیں ادا کرپارہا ہے تو اسے مہلت دینا بہت زیادہ باعثِ ثواب ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، ”من أنظر معسرا أو وضع عنہ أنجاہ اللہ من کرب یوم القیامة (أخرجہ مسلم، رقم: ۳۰۰۶، باب حدیث جابر إلخ) رہا مذکور فی السوال تو یہ معاملہ نزاعی اور دو فریقوں کے درمیان دائر ہے؛ اس لیے جب تک فریقین کی طرف سے متفقہ طور پر یہ وضاحت نہ کی جائے کہ مذکور فی السوال تنظیم کیا کام کرتی ہے؟ اس نے کس مقصد سے قرض لیا؟ تنظیم اور قرض خواہوں کے درمیان معاملے کے وقت کیا ایگریمنٹ ہوا تھا؟ اب تنظیم ٹال مٹول کیوں کررہی ہے؟ وغیرہ، تب تک صورت مسئولہ سے متعلق کوئی حتمی حکم نہیں لکھا جاسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند