معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 162375
جواب نمبر: 162375
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1455-177t/H=1/1440
آپ نے جو پیشکش کی ہے وہ حقیقةً بیع وشراء نہیں بلکہ اقالہ ہے یعنی 2016 میں جو بیع ہوئی تھی اس کو ختم کرکے رقم کا لین دین کرنا مقصود ہے اس کا حکم یہ ہے کہ زیادہ رقم کے ساتھ اقالہ کرنا جائز نہیں بلکہ وہ بحکم سود ہی ہوگا، آپ نے جس سے زمین خریدی تھی وہ اب زمین نہیں دینا چاہتا اس کے دباوٴ ہی میں تو تین لاکھ روپئے بڑھاکر دے رہا ہے ان روپیوں کا لینا جائز نہیں البتہ اگر وہ زمین آپ کے قبضہ میں دیدے یعنی وہی زمین کہ جس کو آپ نے خریدا تھا اور آپ کو اس زمین پر تمام تصرفات کے اختیارات حاصل ہو جائیں آپ چاہیں تو اس پر عمارت بنائیں چاہیں تو اس کو وقف کریں چاہیں تو کسی کو ہبہ کردیں وغیرہ جب ایسا قبضہ ہوجائے اس وقت آپ کسی کو بھی بیچ دیں اگر چاہیں تو تین لاکھ روپئے نفع کے ساتھ اپنے بائع کو بھی بیچ دیں اور وہ آپ سے خریدلے تو اس وقت کہا جائے گا کہ واقعةً آپ نے اپنی زمین اس کو منافع کے ساتھ بیچ دی، منافع لینا تو صورتِ مسئولہ میں نہ آپ کو جائز ہے اور نہ آپ کے بھائی کو لینا جائز ہے، تو ایسی صورت میں بھائی سے یہی کہہ دیں کہ میرا بھی منافع ڈوب گیا اور چونکہ ہم نے مشترکہ زمین خریدی تھی لہٰذا تمھارا بھی ڈوب گیا، میں بھی صبر کروں تم بھی صبر کرو۔ تجارت میں تو اس قسم کے امور پیش آہی جاتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند